ازقلم: محمد ارشد القادری، امبیڈکر نگر
مزہب اسلام میں بہت ساری عیدیں منائی جاتی ہیں مثلاً عید الفطر، عید الاضحٰی، ربیع الأول وغیرہ مگر عید الفطر ایک ایسا عید ہے جسے اللہ ربّ العزت نے اپنے بندوں کے لئے ماہِ رمضان المبارک کا روزہ رکھنے کے بعد تحفتاً عطا فرمایا ہے۔
رمضان المبارک اور عیدالفطر کے درمیان بہت ہی گہرا تعلق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان میں قرآن مجید نازل فرمایا: چنانچہ باری تعالیٰ ہے إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ ﴿۱﴾ وَمَا أَدْرَیٰکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﴿۲﴾ لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَھْر﴿۳﴾ تَنَزَّلُ الْمَلاَئِکَةُ وَالرُّوحُ فِیھَا بِإِذنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ أَمْرٍ﴿۴﴾سَلامٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴿۵﴾( ترجمہ بیشک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا کیا شب قدر، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ، اس میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں، اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے، وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک)
اور اسی ماہ میں مسلمانوں پر روزہ رکھنا فرض فرمایا لوگ اس مہینے کے احترام میں روزہ رکھتے ہیں اور عیدالفطر کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں
جیساکہ اللہ ربّ العزت ارشاد فرماتا ہے وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلیٰ ماَ ھَدٰکُمْ (روزو کی گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو کہ اس نے تمہیں ہدایت فرمائی)
حدیث ابن ماجہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عیدین کی راتوں میں قیام کرے اس کا دل نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مریں گے اور یہ بھی حدیث پاک میں ہےجب حضور صلی اللہ علیہ وسلّم مدینہ منورہ میں تشریف لائے، اس زمانہ میں اہل مدینہ سال میں دو دن خوشی کرتے تھے ( مہرگان و نیروز) آپ نے فرمایا: یہ کیا دن ہیں ؟ لوگوں نے عرض کی، جاہلیت میں ہم ان دنوں میں خوشی ظاہر کرتے تھے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں ان سے بہتر تمہیں دو دن دیئے ، عید الاضحٰی اور عیدالفطر کے دن۔
عید الفطر کا چاند نکلتے ہی تمام لوگوں میں خوشیوں کی لہر دوڑ جاتی ہیں، تمام لوگ اپنے دوست و احباب کو مبارک باد پیش کرتے ہیں’ اور عیدالفطر کی تیاری میں مصروف ہو جاتے ہیں ، اس رات اتنی زیادہ مصروفیات رہتی ہیں کہ پوری پوری رات کام میں مشغول رہتے ہیں، کوئی کپڑا بنانے میں، کوئی گھر سجانے اور اس کی صفائی کرنے میں، کوئی کسی کام میں حتیٰ کہ تمام لوگ اپنے اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں اور اسی حالت میں صبح ہوتے ہی بندے غسل کر کے نئے، نئے کپڑے پہن کر، خوشبو لگاکر عیدگاہ جاتے ہیں تاکہ عیدالفطر کے موقع پر جو خوشیاں آتی ہیں اس پر اللہ ربّ العزت کا شکر ادا کر سکیں، عید کی نماز بعد فوراً تمام لوگوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں، اپنے بچوں کے ذوق وشوق کی چیزیں خریدتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ و معانفہ کرتے ہیں۔
عید کے دن حجامت بنوانا، ناخن ترشوانا، غسل کرنا، مسواک کرنا، اچھے کپڑا پہننا، نیا ہو تو نیا ورنہ دھلا ہوا، انگوٹھی پہننا، خوشبو لگانا، صبح کی نماز محلہ کی مسجد میں پڑھنا، عیدگاہ جلد جانا، نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا، عیدگاہ کو پیدل جانا، دوسرے راستہ سے واپس آنا، نماز کو جانے سے پیشتر چند کھجوریں کھا لینا، تین، پانچ، سات یاکم و بیش مگر طاق ہوں، خوشی ظاہر کرنا، کثرت سے صدقہ دینا، عیدگاہ کو اطمینان و وقار اور نیچی نگاہ کئے جانا، آپس میں مبارک باد دینا، راستہ میں بلند آواز سے تکبیر نہ کہنا وغیرہ یہ سب امور مستحب ہیں۔

اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں شرعی عید منانے اور غیر شرعی امور سے بچنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلینﷺ