ازقلم: خلیل احمد فیضانی
صبح درخشاں سے لے کر شب تاباں تک یہاں نور کی برکھا برستی رہتی ہے …..دیوانے امڈتے ہیں ….
. فیض کے سوتے پھوٹتے ہیں ….قلب و جگر عجب سکون پاتے ہیں….ہزاروں عاشقوں کی مرادیں بر آتی ہیں ……
. یہ اللہ والوں کی بستی ہے…کیف آور سماں
عطر بیز فضا….مشکبار آستانیں….
بافیض بارگاہیں ……گلہاۓ روحانیت کی روح پرورنکہتیں ….سبحان اللہ!
دل فرط فرحت سے جھوم جھوم اٹھتے ہیں ….. روحیں سکون پاتی ہیں …
.دماغ شاد شاد ہوجاتے ہیں ….
سبحان اللہ …..
ملک کے طول و عرض سے پروانے ہجوم در ہجوم یہاں آتے ہیں ………-
گوہرمراد پاتے ہیں…. شادکام ہوکر واپس لوٹتے ہیں………. غریب,غنی ہوکر نکلتا ہے ….. ستم زدہ کمھلاۓ ہوۓ پھول کی طرح آتا ہے; اور گل ہزارہ کی رنگت میں ڈھل کر نکلتا ہے …….
..دکھیارا چوکھٹ چومتا ہے;
من کی مراد پاکر لوٹتا ہے …….
..غرض کہ ہر کوئی بافیض ہوکر واپس ہوتا ہے ….بالیقین یہ حقیقت ہے کہ :
ع نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اللہ کرے ان بافیض نسبتوں کی نکہتیں یوں ہی مشام جاں معطر کرتی رہیں … افزائش روحانیت کا سبب بنتی رہیں…..
اورہمارے بخت خوابیدہ کو بیدار کرتی رہیں …. آمین
شذرہ…یہ تحریر خلیفہ حضور خواجہ غریب نواز صوفی حمید الدین ناگوری علیہ الرحمۃ کے دیار پرانوار ناگور شریف میں حاضری کے وقت لکھی گئی تھی….آج حصول عقیدت و تمناے حاضری لیےایک بار پھر سے حاضر مطالعہ ہے…