ذی الحجہ فقہ و فتاویٰ

قربانی کے جانوروں کی عمر اور دانت نکلنے کا بیان

ازقلم: محمد نفیس القادری امجدی
مدیر اعلی سہ ماہی عرفان رضا مرادآباد۔
خطیب و امام اعلی حضرت جامع مسجد منڈیا گنوں، سہالی کھدر، مرادآباد۔ یوپی، الہند۔

اللہ رب العزت جل جلالہ نے جہاں مسلمانوں پر نماز، زکوۃ، ماہ رمضان کے روزے، حج وغیرہ فرض کیے ہیں۔ایسے ہی قربانی کرنا ہر مالک نصاب پر واجب ہے۔اور قربانی یہ ایک مالی عبادت ہے جو غنی پر واجب ہے خاص جانور کو خاص دن میں اللہ رب العزت جل جلالہ کے لیے ثواب کی نیت سے ذبح کرنا قربانی ہے ۔
مسلمان مقیم مالک نصاب آزاد پر قربانی کرنا واجب ہے ۔
اس تحریر میں جانوروں کی عمر اور دانت نکلنے کا بیان کرنا مقصود ہے۔
قربانی صحیح ہونے کی شرط جانور کی عمر کا مکمل ہونا ہے۔ قربانی میں دانت نکلنے کا اعتبار نہیں ہے، بلکہ شریعت نے جو عمر بیان کی ہے اس کا اعتبار ہو گا۔
جب اسلامی تاریخ کے اعتبار سے اونٹ پانچ سال۔ بھیڑ، بکری ایک سال اور گائے، بھینس دو سال کی ہو اور ان میں قربانی سے مانع کوئی عیب بھی نہ ہو تو بلاشبہ ان کی قربانی جائز ہے، کیوں کہ شریعت کی طرف سے قربانی کے جانوروں کی جو عمر مقرر کی گئی ہے، اس کا پورا ہونا ضروری ہے ،دانت کا نکلنا ضروری نہیں ہے۔
لہذا عمر پوری ہونے کی صورت میں اگرچہ دانت نہ نکلے ہوں تب بھی قربانی صحیح ہوگی۔
صحیح مسلم شریف میں ہے: "لاتذبحوا الا مسنۃ” ترجمہ: تم قربانی میں مسنہ ذبح کرو۔ (صحیح مسلم،کتاب الاضاحی،باب سن الاضحیۃ،ج:2) اس حدیث پاک میں نبی اکرم ﷺ نے قربانی کے جانور کے لیے یہ شرط لگائی کہ وہ مسنہ ہو،اگر وہ جانور مسنہ نہیں ،تو اس کی قربانی نہیں ہو سکتی۔
اور فقہا کے نزدیک اونٹ میں سے ثنی وہ ہے جس کی عمر پانچ سال مکمل ہو اور چھٹّے میں داخل ہو،گائے میں سے ثنی وہ ہے جس کی عمر دو سال مکمل ہو اور تیسرے میں داخل ہو اور بکری میں سے ثنی وہ ہے جس کی عمر ایک سال مکمل ہو اور دوسرے میں داخل ہو۔

فقہ مشہور کتاب ھدایہ میں ہے:

"یجزئ من ذلک کلہ الثنی فصاعداً الا الضان فان الجذع منہ یجزئ”۔ یعنی جانوروں میں سے وہ کافی ہے جو ثنی ہو یا اس سے زیادہ ہو، سواے بھیڑ کے کہ اس کا جذع (چھ ماہ کا بچہ) کافی ہے۔ اس کے تحت صاحب ھدایہ نے ذکر فرمایا ہے: "و الثنی منھا و من المعز ابن سنۃ ومن البقر ابن سنتین.و من الابل ابن خمس”۔
ترجمہ: بھیڑ اور بکری میں سے ثنی اس کو کہتے ہیں جو ایک سال کا ہو، گائے میں سے ثنی وہ ہے جو دو سال کی ہو، اور اونٹ میں سے ثنی وہ ہے جو پانچ سال کا ہو۔
اور در مختار میں ہے: "صحّ الثنی فصاعداً من الثلاثۃ والثنی ھو ابن خمس من الابل و حولین من البقر و الجاموس و حول من الشاۃ”۔
ترجمہ: تینوں قسم کے جانوروں میں سے ثنی یا اس سے زیادہ کی قربانی صحیح ہے، ثنی اونٹ میں سے پانچ سال کے جانور کو ، گائے اور بھینس میں سے دو سال کے جانور کو اور بکری میں سے ایک سال کے جانور کو کہتے ہیں۔
تو ان عربی عبارات کا خلاصہ وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا، یعنی قربانی کے جانور میں عمر کا پورا ہونا ضروری ہے،دانت نکلنا ضروری نہیں۔ جیسا کہ فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ و الرضوان ارشاد فرماتے ہیں:
"قربانی کے بکرا کی عمر سال بھر ہونا ضروری ہے، دانت کا نکلنا ضروری نہیں،لہذا اگر بکرا واقعی سال بھر کا ہے،تو اس کی قربانی جائز ہے،اگر چہ اس کے دانت نہ نکلے ہوں”۔ ( فتاوی فیض الرسول،ج:2،ص:456،قربانی کا بیان)

نوٹ: یہ یاد رہے کہ سامنے کے دو بڑے دانتوں کا نکلنا جانور کی عمر پوری ہونے کی علامت ہے،کیوں کہ اونٹ کے پانچ سال بعد،گائے ،بھینس وغیرہ کے دو سال بعد اور بکری بھیڑ وغیرہ کے ایک سال بعد ہی دانت نکلتے ہیں، اس سے پہلے نہیں،لہذا اگر کسی جانور کے دانت نہ نکلے ہوں،تو خریدنے سے پہلے اچھی طرح تحقیق کریں کہ اس کی عمر اسلامی تاریخ کے اعتبار سے مکمل ہے یا نہیں۔

یہ پوسٹ میں نے اپنے ایک قابل قدر دوست کے کہنے لکھی۔
کیونکہ عوام میں بہت مشہور ہے کہ جانور کے دانت نکل گئے ہوں تب ہی قربانی ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے