نتیجۂ فکر: شمس الحق علیمی، مہراج گنج
جس کی زباں پر رواں ان کی ثنا ہو گئی
اس شخص کی زندگی غم سے رہا ہو گئی
بولے ولادت کی شب جن و بشر جھوم کر
وہ آج آئے خوشی کی انتہا ہو گئی
پیارے نبی ہو گئے جلوہ نما جب وہاں
یثرب کی پھر سرزمیں دار الشفا ہو گئی
تو بھیج دے اب عمر سا اک خلیفہ خدا
ظلم و ستم کی جہاں میں انتہا ہو گئی
وہ پیر زن جو سدا ہجرت کو مجبور تھی
رحمت کی اک ہی نظر سے پارسا ہو گئی
مشکل میں مولا علی کو جب پُکارا کبھی
تو دور سر سے مرے ہر اک بلا ہو گئی
شمسی بھی آتا کبھی دیدار کو اے خدا
چشمِ کرم شاہِ دیں کی گر عطا ہوگئ