ازقلم: محمد غلام سرور مظفر پوری، متعلم: جامعہ اشرفیہ مبارک پور،اعظم گڑھ، یو۔پی۔
حال ہی کا واقعہ ہے کہ جب میں اسلام کی دعوت وتبلیغ کی خاطر عوام کے مابین گیااور ان سے صوم و صلاۃ کی پابندی کرنے کو کہاتو ان کے جواب نے مجھے اس طرح کبیدہ خاطر کر دیا کہ میں کچھ لمحوں کے لیے سکتے پڑ گیا۔پتہ ہے کیوں؟انھوں نے مجھ سے کہا حضرت! وہ بچے جو اپنے شب و روز ایک کرکے اسلامی تعلیم کے حصول میں سرگرداں ہیں اس کے باوجود وہ نمازاوردیگر اسلامی امور پہ عمل پیرا نظر نہیں آتے ہیں تو ہم کیسے پابند ہو پائیں گے؟ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طلبہ مدارس ہم سے کہیں زیادہ شریعت کے اصول و ضوابط سے آگاہ اور آشنا ہیں لیکن اکثردیکھا جاتاہے کہ شرعی احکام کی وہ خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں -جب وہ چھٹی کے دنوں میں اپنے گھر آتے ہیں تو اکثر نمازوں کی پابندی نہیں کرتے -اے کاش وہ پابندی کرتے تو ان کو دیکھ کر محلے کے دوسرے لوگ بھی پابندی کرتے -اس لیے کہ قول سے زیادہ عمل مؤثر ہوتا ہے –
ان کی باتیں سن کر میں فکر کے سمندر میں ڈوب کر سوچنے لگا
اے کاش ہم پڑھائی اور کھیل کے ساتھ (جیسا کہ منقول ہے”اللعب ضرورى مع القرأۃ”)نماز کی بھی پابندی کرتے تو عام لوگ ہم سے نماز کی پابندی سے متعلق کو ئی شکایت نہیں کرتے-
لہٰذا! تمام طلبااور احباب سے پرخلوص گزارش ہے کہ آپ سبھی نماز کی پابندی کریں اور رخصت میں گھر جائیں تو اس کا خاص خیال رکھیں -کیوں کہ آپ ہی تو مستقبل کے درخشاں ستارے ہیں۔اسی لیے خود کو پہچانیے اور علم وعمل سے آراستہ و پیراستہ کیجیے۔اخیر میں،میں آپ سے اتنا ہی کہنا چاہوں گا :
اپنے من میں ڈوب کر، پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن