ازقلم: عبدالرشیدامجدی ارشدی دیناجپوری
سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال
مخصوص جانور کو کسی خاص دن میں ثواب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنا قربانی ہے _ قربانی ایک اہم دینی عبادت ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے "فصل لربک وانحر "
(یعنی تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو) احادیث میں قربانی کے بے شمار فضائل ہیں _ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : کہ یوم النحر میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارہ نہیں اور وہ جانور قیادت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ آۓ گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے خدا کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے لہٰذا اس کو خوش دلی سے کرو۔ (ترمذی شریف جلد 1 صفحہ 170)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو روپے عید الاضحٰی کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی پیارا نہیں۔ (معجم الکبیر جلد 11 صفحہ 14 )
حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی وہ جہنم کی آگ سے حجاب(روک) ہو جائے گی (معجم الکبیر جلد 3 صفحہ 84)
سوال :- قربانی کس پر واجب ہے ؟
جواب :- قربانی واجب ہونے کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ہیں کہ ان میں سے ایک شرط بھی فوت ہوجائے تو قربانی کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔
(1) اسلام یعنی مسلمان ہونا لہذا غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں۔
(2) اقامت یعنی مقیم ہونا لہذا مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
(3) تونگری یعنی مالک نصاب ہونا تونگری کا مطلب یہ نہیں کہ بہت مالدار ہو اس پر زکوٰۃ فرض ہو بلکہ جو ساڑھے باون تولہ یعنی چھ سو گرام چاندی یا اس کی قیمت کا مالک ہو یا حاجت اصلیہ کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو وہ غنی ہے اس پر واجب ہے حاجت اصلیہ کے علاوہ اگر کسی کے پاس اتنی قیمت کا سامان بھی ہے جیسے T V ریڈیو زیورات ایسے برتن جسکا استعمال نہیں ہوتا صرف سجا نے کی نیت سے رکھے ہیں تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے ہاں جس پر قرض ہے اگر اس کے مال سے قرض کی مقدار تک الگ کریں تو بقیہ مال ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نہ ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں۔
(4) حریت یعنی آزاد ہونا لہذا غلام پر قربانی واجب نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد 8 صفحہ 393)
سوال قربانی کا وقت کب سے کب تک ہے ؟
جواب :- قربانی کا وقت دسویں ذوالحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن اور دو راتیں جسے ایام نحر کہتے ہیں _ اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : قربانی یوم نحر تک یعنی دسویں سے بارہویں تک جائز ہے آخر ایام تشریق تک کہ تیرہویں ہے جائز نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد 8 صفحہ نمبر 386)
ان دنوں میں سب سے افضل دسویں پھر گیارہویں ہے نیز شہر میں قربانی کرنے کے لیے یہ شرط ہے کہ وہاں نماز عید الاضحٰی ہو جائے نماز عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہو سکتی اور دیہات میں طلوع آفتاب کے بعد قربانی کرنا افضل ہے اسی میں ہے : اگر قربانی شہر میں ہو جہاں نماز عید واجب ہے تو لازم ہے کہ بعد نماز ہو اگر نماز سے پہلے کرلی قربانی نہ ہوئ اگر چہ قربانی دیہاتی کی ہو۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد 8 صفحہ 333)
سوال :- کن کن جانوروں کی قربانی ہو سکتی ہے اور ان کی عمر کیا ہونی چاہیے ؟
جواب :- اونٹ گائے بھینس بکری بھیڑا اور دنبہ نر ہو یا مادہ ان سب کی قربانی ہو سکتی ہے نیز اونٹ کی عمر کم از کم پانچ سال گائے بھینس کی دو سال اور بکری یا بکرا کی ایک سال ہونی چاہیے ان جانوروں کی عمر اس سے کم ہو تو قربانی نہ ہوگی اگر چہ ایک ہی دن کیوں نہ ہو اور مذکورہ عمروں سے زیادہ ہونا افضل و مستحسن ہے البتہ بھیڑ اور دنبہ کی عمر کامل ایک سال ہونا ضروری نہیں یہاں تک کہ چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ (بہار شریعت 3/339)
سوال :- جس جانور کے خصیے نکال دیے گئے ہوں اس کی قربانی جائز ہے یا نہیں ؟
جواب :- ایسے جانور کی قربانی نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جن دو مینڈھوں کی قربانی کی ان کے خصیے نکالے ہوئے تھے یعنی وہ دونوں جانور خصی تھے فتاویٰ امجدیہ میں ہے خصی کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے۔ (فتاویٰ امجدیہ جلد 3 صفحہ 305)
اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : خصی کی قربانی افضل ہے اور اس میں ثواب زیادہ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد 8 صفحہ 442)
سوال :- قربانی کے جانور کی کون کون سی چیز حلال اور کون کون سی چیز حرام ہیں ؟
جواب:- جانور قربانی کا ہو یا غیر قربانی کا ہر حلال مذبوحہ جانور کے سب اجزا حلال ہیں مگر بعض یا تو حرام ہیں یا ممنوع یا مکروہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے اپنی قوت استنباط سے ایسی 22 چیزوں کی نشاندہی فرمائ جو یہ ہیں( 1) رگوں کا خون (2) پتا (3 )پھکنا( 4 )علامات نر( 5) علامات مادہ (6 ) بیضے( 7) غدود (8 )حرام مغز (9 )گردن کے دو پٹھے( 10 )جگر کا خون (11) تلی کا خون (12) گوشت کا خون بعد ذبح گوشت میں سے نکلتا ہے (13) دل کا خون (14) پت (15) ناک کی رطوبت کہ بھیڑ میں اکثر ہوتی ہے( 16) پاخانہ کا مقام (17) اوجھڑی (18) آتیں (19) نطفہ (20) وہ نطفہ کہ خون ہو گیا (21) وہ کہ گوشت کا لوتھڑا ہو گیا (22) وہ کہ پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا یا بے ذبح مرگیا۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد 8 صفحہ 327)
سوال :- قربانی کا گوشت یہاں کے غیر مسلموں کو دینا کیسا ہے ؟ اگر کسی نے دے دیا تو اس کی قربانی ہوگی یا نہیں ؟
جواب :- قربانی کا گوشت یہاں کے غیر مسلموں کو دینا شرعا جائز نہیں اگر کسی نے دے دیا تو گناہگار ہوا اسے چاہیے کہ توبہ کرے البتہ قربانی ہو جائے گی اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : یہاں کے کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں وہ خاص مسلمانوں کا حق ہے پھر بھی اگر کوئی اپنی جہالت سے دے گا تو قربانی میں کوئی حرج نہ کرے گا۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد 8 صفحہ 467)
سوال :- شرکاء کے درمیان قربانی کا گوشت اندازے سے تقسیم کرنا کیسا ہے ؟
جواب :- اگر شرکا نے کسی کو گوشت تقسیم کرنے کا وکیل بنا دیا تو وکیل کو اختیار ہے وہ چاہے گوشت وزن کرکے تقسیم کرے یا اندازے سے دونوں صورتیں جائز ہے اور اگر شرکا نے کسی کو گوشت کی تقسیم کا وکیل نہیں بنایا ہو تو ان کا اپنے درمیان قربانی کا گوشت اندازے سے تقسیم کرنا شرعا جائز نہیں بلکہ انہیں چاہیے کہ گوشت وزن کرکے تقسیم کریں تاکہ کسی کو کم یا زیادہ نہ ملے اس معاملے میں شرکا کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ”اگر کسی کو رائد چلا گیا تو معاف کر دیں گے کیونکہ یہ حق شرع ہے جو کسی کو معاف کرنے کا اختیار نہیں ,بہار شریعت, میں ہے شرکت میں گائے کی قربانی ہوئ تو تو ضروری ہے کہ گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے اندازے سے تقسیم نہ ہو کیونکہ ہو سکتا ہے کسی کو زائد یا کم ملے اور یہ ناجائز ہے یہاں یہ خیال نہ کیا جائے کم و بیش ہوگا تو ہر ایک اس کو دوسرے کے لیے جائز کر دے گا کہہ دے گا کہ اگر کسی کو زائد پہنچ گیا تو معاف کیا کہ یہاں عدم جواز حق شرع ہے اور ان کے اس کو معاف کرنے کا حق نہیں۔ (بہار شریعت 3/ 336)
سوال:- قربانی کا چمڑا کہاں کہاں صرف کر سکتے ہیں ؟
جواب :- قربانی کا چمڑا ہر نیک کام میں صرف کر سکتے ہیں بلکہ اسے باقی رکھتے ہوئے اپنے کسی کام میں بھی لاسکتے ہیں مثلاً مصلی بنانا مشکیزہ بنانا یا کتب کی جلد سازی کرنا وغیرہ یونہی خاص چمڑے کو ایسی چیزوں سے بدل بھی سکتے ہیں جیسے باقی رکھتے ہوئے اپنے کام میں لاسکیں جیسے کتاب وغیرہ البتہ ایسی چیز سے بدل نہیں سکتے جیسے فنا کرکے نفع اٹھانا پڑے مثلاً غلہ یا روپے پیسے وغیرہ فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے قربانی کا کھال ہر اس کام میں صرف کر سکتے ہیں جو قربت و کار خیر و باعث ثواب ہو اسی میں ہے : اسے باقی رکھ کر اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں مثلاً ان کے مشک ڈول یا کتابوں کی جلدیں بنوالیں لقولہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم وادخروا ؛ اپنے استعمال کے لیے اس سے دو چیزیں خرید سکتے ہیں جو باقی رکھ کر استعمال ہوتی ہیں جیسے برتن کتابیں وغیرہ ایسی میں ہے : اپنے لیے کسی ایسی چیز سے بیچیں جو خرچ ہو کر کام میں آتی ہے جیسے کھانے پینے کی چیزیں یہ ناجائز ہے۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد 8 صفحہ 485)
سوال :- قربانی کا چمڑا مسجد یا مدرسہ میں دے سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب:- مسجد و مدرسہ بھی کار خیر ہیں لہذا یہاں بھی دینا جائز ہے فقیہ اعظم ہند حضور صدر الشریعہ بدرالطریقہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں چرم قربانی کار خیر میں صرف کرنا جائز ہے دینی مدارسہ بھی امور خیر سے ہے اس میں بھی صرف کر سکتے ہیں مسجد میں بھی صرف کرنا جائز ہے۔ (فتاویٰ امجدیہ جلد 3 صفحہ 326)
سوال:- قربانی کا مسنون طریقہ کیا ہے ؟
جواب قربانی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے سے پہلے چارہ پانی دے دیں پہلے سے چھری تیز کر لیں اور جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کو ہو اور اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے جلدی ذبح کریں اور ذبح سے قبل یہ دعا پڑھیں "إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ”.
قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دعا پڑھیں
"اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْهُ مِنِّيْ كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِيْبِكَ مُحَمَّدٍ وَ خَلِيْلِكَ إبْرَاهِيْمَ عليهما السلام”.
اور اگر دوسرے کی طرف سے ہو تو ..منی.. کی جگہ من کہہ کر اس کا نام لیں اور مشترک جانور میں تمام شرکاء کے نام اس طرح لیں (1) من…… بن…… (2) من….بن…..