تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
بادشاہ افریقہ اور عالم اسلام کے مشہور مجاہد یوسف بن تاشقین(1009-1106)جب اندلسی مسلمانوں کی مدد کے لئے گئے تو 1086 میں مشہور عیسائی بادشاہ الفانسو سے زلاقہ میں جنگ ہوئی۔یوسف بن تاشقین کو فتح یابی نصیب ہوئی۔
الفانسو کے لشکر میں ساٹھ ہزار فوجی تھے اور خود الفانسو جنگ میں شریک تھا۔59,500 فوجی مارے گئے۔الفانسو بچ گیا,لیکن لنگڑا ہو گیا۔ساٹھ ہزار میں سے صرف پانچ سو فوجی زندہ بچ سکے۔
اس شکست کے سبب عیسائیوں کی ہمت ٹوٹ گئی اور یوسف بن تاشقین نے اندلس کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو اپنی حکومت میں ضم کر لیا۔
زلاقہ میں عیسائیوں کو شکست فاش دینے کے بعد امیر یوسف بن تاشقین اشبیلیہ گئے۔ وہاں ایک رات کو اندلس کے شعرا اپنے قصائد لے کر حاضر خدمت ہوئے اور یوسف بن تاشقین کی مدح و ستائش میں رطب اللسان ہوئے۔یوسف بن تاشقین نے اسے ناپسند کیا اور کہا کہ مجھے تو ان کی باتیں سمجھ میں نہ آ سکیں۔ہاں اتنا معلوم ہوا کہ یہ لوگ روٹی کے محتاج ہیں۔ان کو انسانوں کی تعریف کے بجائے خدا کی تعریف کرنی چاہئے۔
یوسف بن تاشقین نے شاعروں کو نہ انعام دیا,نہ ہی ان کی تحسین کی,بلکہ اٹھ کر نماز کو چلے گئے۔
یہ واقعہ نسیم حجازی نے اپنی تصنیف”یوسف بن تاشقین”(ص388)میں لکھا ہے۔
درباری شاعروں کی طرح اب نقیب اجلاس بھی رائی کو پہاڑ اور کم علموں کو علامہ بنانے میں بہت جلد باز واقع ہوئے ہیں۔
جو پابند شریعت بھی نہیں,جلسوں کے نقیب ان کو ولی بنانے کا عظیم ملکہ رکھتے ہیں۔بس حقیقت و مجاز کا فرق ہے۔
پیراں نمی پرند:مریداں می پرانند
یہ بھی رواج ہو چکا ہے کہ کسی پیر یا عالم کی وفات ہو گئی تو اسے امام الواصلین اور امام العارفین بنادیا جاتا ہے۔وہ عارف باللہ تھے یا نہیں,واصل الی اللہ تھے یا نہیں۔کچھ پتہ نہیں۔
درباری شاعروں اور جلسہ کے نقیبوں کے بعد نفس انسانی کا نمبر آتا ہے۔لوگ خود اپنے ناموں کے ساتھ عظیم القاب لکھتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تلامذہ یا معتقدین نے لکھ دیا ہے۔
درحقیقت ایسا کرنے والے خود کو عظیم انسان تصور بھی کرتے ہیں۔تواضع و انکساری غائب ہو چکی ہے اور غرور وگھمنڈ سر پر چڑھ کر بانگ لگا رہا ہے۔خالی صراحی سے آواز آتی ہے,جب کہ پھلدار درخت جھکا ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد تقریبا دو ارب ہے۔جامع ازہر مصر کے متعدد سنی اساتذہ اور عرب کے متعدد سنی علما خود کو مجتہد سمجھتے ہیں اور اپنے کو تقلید سے ماورا گردانتے ہیں۔کیا امت مسلمہ ان کو مجتہد مانتی ہے۔ہرگز نہیں۔ایسے دعووں پر لوگ کان ہی نہیں دھرتے۔
دسویں صدی ہجری کے مجدد امام جلال الدین سیوطی شافعی نے مجتہد فی المذہب ہونے کا دعوی کیا تھا۔شافعی فقہا نے چند سوالات بھیجے کہ آپ مجتہد ہیں تو ان سوالوں کو حل فرما دیں۔انہون نے سوال واپس فرما دیا اور معذرت خواہی کر کے مجتہد ہونے کا دعوی ترک کر دیا۔
عہد حاضر کا کوئی عالم امام جلال الدین سیوطی کے برابر بھی ہونا مشکل ہے,لیکن اجتہاد کا دعوی ضرور ہے۔اگر بڑی تعلیم گاہ کے بڑے اساتذہ مجتہد ہیں تو بڑی خانقاہوں کے پیروں کو غوث وقطب اور ابدال ہونا چاہئے۔
اتنا نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ماہنامہ پیغام شریعت(دہلی)کے جو شمارے میری تصحیح سے شائع ہوتے ہیں۔میں نے کبھی اپنے نام کے ساتھ مولانا نہیں لکھا ہے۔ان شماروں کو دیکھ لیا جائے۔
دوسروں کو بھی میں مولانا لکھنے کی ترغیب نہیں دیتا,چہ جائے کہ عظیم القاب۔حضرت مولانا مفتی مظفر علی مدنی(فیصل آباد)نے ایک بار فرمایا کہ میں نے مضمون میں آپ کے نام کے ساتھ مولانا لکھ دیا ہے۔میں نے عرض کیا کہ "مصباحی”لکھ دینے سے لوگ سمجھ ہی جاتے ہیں کہ مولانا ہوں گے۔انہوں نے فرمایا کہ پڑوسی ملک میں سبھوں کو یہ معلوم نہیں۔
کیا ہم دینی خدمات اسی لئے انجام دیتے ہیں کہ ہم عظیم القاب سے ملقب کئے جائیں؟
اگر ایسا ہے,تب تو خدمات دینیہ کی قبولیت پر سوال اٹھے گا۔
پھر ایسی خدمات دینیہ میں برکات خداوندی کی امید بھی مشکل ہے۔خدام دین متین اپنے اعمال صالحہ وخدمات دینیہ کی قبولیت پر نظر رکھیں۔
بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں
مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا
ہاں,اگر کوئی دوسرا کچھ القاب لکھ دے یا کہہ دے اور وہ حد جواز میں ہو تو اس کو ان کے حسن ظن پر محمول کر کے تعرض نہ کیا جائے,بشرطے کہ ہمارا نفس کبرونخوت میں مبتلا نہ ہو۔
اگر نفس کے کبروغرور میں مبتلا ہونے کا خوف ہو تو نفس کشی بہتر ہے۔نفس کشی کے بہت فوائد ہیں اور نفس کشی عملی تصوف کا بہت ہی اہم حصہ ہے۔
یوں تو عہد حاضر میں تصوف بھی علمی فن ہو کر رہ گیا۔خانقاہوں میں تصوف کے تذکرے تو ضرور ہیں,لیکن عملی تصوف چند ہی خانقاہوں میں ملے گا۔اب پیری مریدی بھی حالات زمانہ سے سخت متاثر ہو چکی ہے۔