محمد عامل ذاکر مفتاحی
مدرسہ فاروقیہ و الفلاح کلاسس گوونڈی
برائے رابطہ 9004425429
بھارت کا شمار دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے، 26 جنوری 1950 میں ہندوستان نے اپنے لئے جو دستور طے کیا اس کے آغاز میں ایک بہت خوبصورت جملہ لکھا گیا ہے “ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لئے سماجی، معاشی، سیاسی انصاف، آزادئ خیال، اظہار رائے، آزادئ عقیدہ ومذہب وعبادات، مواقع اور معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم ودائم رکھا جائے گا” یوم جمہوریہ کے دن ملک بھر میں ہر جگہ سرکاری چھٹی رہتی ہے اور تعلیم گاہوں و سرکاری اداروں میں جشن جمہوریہ کا پروگرام منعقد کرتے ہیں، ترانے پڑھے جاتے ہیں، راشٹریہ گیت گایا جاتا ہے، سیکولرازم کے عنوان سے بیانات ہوتے ہیں، ہندوستان میں جمہوریت کی بقا رہنی چاہیئے ہر ہندوستانی کو اپنے مذہب اور عقیدہ کی مکمل آزادی ہونی چاہیئے سب کو رہنے سہنے اور کھانے پینے کا مکمل اختیار ہونا چاہیئے، ہر ہندوستانی کو ہندوستان کا ایک شہری ہونے کے ناطے جو سہولیات ملنی چاہئیں وہ ہر ہندوستانی کو ملنی چاہیئے، اقلیتوں کے ساتھ انصاف، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور ہندوستان کے دوسرے تمام مذاہب کے ماننے والوں کا آپس میں اتحاد واتفاق اور اخوت بھائی چارگی کے ساتھ رہیں، ملک کی تمام شرور وفتن سے حفاظت اور دیش کی ترقی کے لیے ہمیں بھر پور کوشش کرنی چاہیئے۔
مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور دستور سازی
مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ جو قانون سازمجلس کے رکن تھے اور جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی تھے ،مجاہدِ ملت نے بھی دستور سازی میں بڑی قابلِ قدر کوششیں کی ہیں ۔چناں چہ قاضی محمد عدیل عباسی ایڈووکیٹ لکھتے ہیں کہ:’’سب سے بڑا احسان جو انہوں نے ملتِ اسلامیہ پر کیا وہ دستور ہند کا موجود ہ ڈھانچہ ہے۔اس وقت مولانا دستور ساز اسمبلی کے ممبر تھے اور کم لوگوں کویہ معلوم ہوگا کہ اقلیتوں کو جوحقوق دئیے گئے ہیں ،ان کی ترتیب وتدوین میں مولانا حفظ الرحمن کا بہت بڑاہاتھ ہے۔آج یہی دستور کی دفعات ہیں،جومسلمانوں کوہندوستان میں سربلندرکھتی ہیں اور اگر ان میں حقوق حاصل کرنے کی طاقت پیداہوجائے یعنی وہ احساس کمتری سے نکل آویں تو ان کا مستقبل تابناک ہوسکتا ہے۔‘‘( مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ایک سیاسی مطالعہ :۹۱)
جنا ب محمد سلیمان صابر صاحب لکھتے ہیں کہ :’’آئین ساز اسمبلی کی ممبری کو عام لوگ ایک بڑااعزاز کہہ سکتے ہیں۔لیکن حضرت مولانا نے کسی اعزاز کی خاطرنہیں بلکہ اس لئے آئین یا قانون ساز اسمبلی کی ممبری قبول کی کہ وہ شروع ہی سے ایک قومی رکن رہے تھے۔برطانوی دور میں ملک کو آزاد کرانے کا اہم مقصد سامنے تھا اور حصول آزادی کے بعد سب سے اہم کام یہ تھا کہ ملک کو ایسا جمہوری آئین دیا جائے جو بلاتخصیص مذہب کسی باشندے کو کسی دوسرے پر فوقیت یا برتری حاصل نہ ہو۔بلکہ قانون کی نظرمیں سب برابر ہوں۔یہ حضرت مولانا جیسے وسیع النظر ممبروں ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ملک کو ایک سیکولر آئین دیا گیا۔( مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ایک سیاسی مطالعہ :۱۱۷)
یہ دو حضرات کی فکر وکوشش کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ،مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی شخصیت اور ان کی خدمات تو روشن ہیں۔ان مشہور شخصیات کے علاوہ دیگر حضرات کے کارناموں کو اجاگر کرنے اور تاریخ کے صفحات سے ان کی خدمات کو کھنگال کر قوم وملت کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کو جمہوری بنانے میں مسلمانوں کا اہم رول رہا ہے اور مسلمان صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ تمام بھارتیوں کے لئے یہ کوشش کرتے آئے ہیں۔
یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے جشن کے حوالہ سے مدارس کے خلاف ایک بے اصل بیان کے ذریعہ مسلسل ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جا تی رہی ہے حالانکہ تاریخ کا ادنی سے ادنی طالب علم بھی واقف ہے کہ جنگ آزادی میں مدارس کا کردار ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتاہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے آرایس ایس اور اس کی ہمنوا سیاسی پارٹی نے ان مدارس کے خلاف انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دے دیکر ایک سوالیہ نشان قائم کرنے کی کوشش کی ہے ان کا کہنا ہے کہ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر مدارس میں ترنگا نہیں لہرایا جاتا اور نہ ہی جشن منایا جا تا ہے جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ان مدارس میں ان دونوں دنوں میں چھٹی رہتی ہے اور بڑے ہی شان و شوکت سے جشن بھی منایا جاتا ہے، وطن عزیز کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار کسی سے مخفی نہیں ہے خاص طور پر علماء کرام کا، اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ہم پر شک کرنا ہمیں مشکوک قرار دینا انتہائی شرمناک اور بے ہودہ حرکت ہے.
شروع کی جس نے آزادی کی لڑائی وہ مسلمان ہی تھا
دیا ہند کو تاج محل جس نے وہ شخص مسلمان ہی تھا
جہاں لہراتا ہے ترنگا آج بھی بڑی شان سے ، کیا تعمیر جس نے لال قلعہ وہ شخص مسلمان ہی تھا،
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” لکھا جس نے ترانۂ ہند وہ اقبال مسلمان ہی تھا۔
ہندوستانی جمہوریت کیا ہے؟یعنی ایک جماعت کی لیڈر شپ وہ بھی عوامی طر یقے سے یعنی عوام نمائندے بن کر آنے کے بعد اس کا اصل معنی عوام کی حکومت عوام آقا ہوتے ہیں جو ہر پانچ سال میں ایک مر تبہ انتخاب کے ذریعہ یہ جماعت (پارٹی)اقتدار پر آتی ہے اور سارے ملک کا نظام چلاتی ہے۔جمہوریت آزادی مساوات قانوں کی قومیت اور انفرادی تر قی کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ذات کا بھید بھائوبھٹک ہی نہیں سکتا اس جمہوری نظام کے تحت قانون کی بہت اہمیت ہے۔کیونکہ عام وخواص لیڈروں نیتا سبھی قانون کے دائرے میں آتے ہیں ۔قانون کی نظر میں سب برابر ہے۔
چنانچہ آج اس ملک کی جمہوریت اور سالمیت خطرہ میں ہے اور ملک کو ہندوراشٹر بنانے اور خاص رنگ میں رنگنے کی پھر کوششیں زوروں پر ہیں ایسے پُرخطر حالات میں تمام امن پسند ،جمہوریت کے پاسبانوں کو اس ملک کی جمہوری بقاکے لئے ایک نئی جدوجہد کرنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ ہمارا یہ پیاراملک نفرت کی آگ میں جھلس جائے گااور فرقہ پرستی کی لہر تباہ وبرباد کردے گی۔
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئینِ گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے