تحریر: محمد کہف الوری مصباحی
دارالعلوم فیض النبی جامع مسجد، نیپال گنج ضلع بانکے، نیپال
غربت اور مال داری دنیا میں ان دونوں حالتوں سے کسی کو چھٹکارا نہیں۔ انسان یا تو غریب ہوگا یا مال دار ہوگا۔ (ہاں ! یہ ضرور ہے کہ ان دونوں حالتوں میں یہ تفاوت ہوتا ہے کہ کوئی زیادہ مال دار ہوتا ہے کوئی کم ، یوں ہی کوئی زیادہ غریب ہوتا ہے کوئی کم۔)
الحاصل : غربت اور مال داری دونوں انسانی زندگی کا لازمہ ہیں ، جس سے کسی کو انکار نہیں ، کیوں کہ روز مرہ لوگ اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ ہر کوئی مال دار شخص کو دیکھ کر کہتا ہے کہ یہ ایک مال دار شخص ہے۔ اور غریب کو دیکھ کر یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ غریب انسان ہے ۔ اور یہاں پر ان مذکورہ افراد کے مذہب ، طبقہ ، ذات ، علاقہ یا پیشہ کو بنیاد بنا کر ان کی عزت و ذلت کے حوالے سے ان پر تنقید نہیں کی جاتی ، بلکہ اسے ایک عام تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
گویا ؛ مذکورہ دونوں صفتیں تمام افراد انسان کے لیے عام ہیں ۔ یہ کسی مذہب ، طبقہ ، ذات ، علاقہ یا پیشہ کے ساتھ خاص نہیں ۔ ہر کوئی غریب بھی ہو سکتا ہے ، ہر کوئی مال دار بھی۔
مگر ایک انسانی طبقے میں عرض عام کی حیثیت سے پائی جانے والی یہی غربت جب کسی #مولوی میں پائی جاتی ہے تو لوگوں کا تصوراتی نظریہ بدل جاتا ہے اور وہ مولویت کو اس کی غربت کی وجہ بتا کر اس پر بھدی تنقیدیں کرتے ہیں ۔ مولویت کو قصور وار ٹھہرا کر اس پر طعنہ زنی کرتے ہیں کہ #اگر یہ مولوی نہ بنتا تو آج بڑا مال دار ہوتا* وغیرہ وغیرہ۔
یہ نظریہ در حقیقت مولویت اور مولوی کے راستے سے علم دین اور علمائے ربانیین سے متنفر کرنے والوں نے پیدا کیا ، جس کے برے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اور وہ بیان کرنے سے بھی زیادہ ظاہر ہیں۔
اس فرسودہ نظریے سے جنم لینے والے اس گھٹیا تصور کو بھی دیکھیں کہ آج ہماری قوم کے اہل ثروت طبقے کی اکثریت اپنی مسجد و مدرسہ کے غریب مولویوں کو خریدنے میں لگی ہوئی ہے ۔ بات بات پہ کہتے ہیں "ارے کیا بات کرتے ہیں امام صاحب/ مولوی صاحب ! یہیں بیٹھے بیٹھے آپ جیسے لوگوں کو خرید لوں گا” یعنی ان غریب مولویوں کو خرید لینا ہی ان کی زندگی کی معراج ہے۔
جب کہ دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے مذہبی پیشواؤں کو نہیں ، بلکہ اپنی کمائی کی ہر پونجی سے پوری حکومت کو خرید کر اپنی قوم و ملت کو مضبوط بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ حکومت کے ساتھ اپنا کاروباری سلسلہ قائم کر کے اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر بڑی آسانی کے ساتھ اپنا ہر منصوبہ پورا کرتے جا رہے ہیں۔
اسی لیے ان کے پاس؛ بہترین یونیورسٹیز ہیں جہاں سے ان کی نسلیں دن بدن ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ بہترین لاء اینڈ کیریئر کالجز ہیں جہاں سے فارغ ہو کر وہ اونچے اونچے عہدے پر فائز ہیں اور اپنے مخصوص نظریے کی نشر و اشاعت کر رہے ہیں۔ بہترین پرائیویٹ ہاسپٹل ہیں جہاں اپنی مرضی کی فیس لے کر من مانا علاج کرتے ہیں۔ ریلوے ڈپارٹمنٹ پر ان کا تسلط ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
ایک ہماری قوم ہے جو اپنے دینی رہنماؤں کو خریدنے میں ہی اپنی کام یابی سمجھ رہی ہے۔ جب کہ ہماری قوم اگر چاہ لے تو اعراس ، قوالی ، بے مصرف کے رسمی جلسے ، محرم میں ڈھول ، تاشے جھانجھ اور تعزیے کے نام پر جمع کی جانے والی رقموں سے دنیا کا نقشہ بدل دے۔ اے کاش ہمارے بھائیوں کو یہ باتیں سمجھ میں آ جاتیں۔
اٹھو بیدار ہو جاؤ تمہیں کچھ کام کرنا ہے
جہاں میں مصطفی کے دین کو پھر عام کرنا ہے
مولائے کریم ہم سب کو توفیق خیر بخشے ۔ آمین