نتیجۂ فکر: نیاز جے راج پوری علیگّ، اعظم گڑھ
عداوت ، بُغض و نفرت کی جو آندھی رُک نہیں پاتی
اُسی آندھی نے خاک و خوں کی منظر دِکھائے ہیں
گلی کُوچوں میں بہتا خون ، زخمی لوگ اور لاشیں
اُسی آندھی نے یہ سب اور جلتے گھر دِکھائے ہیں
کہیں فِرقہ پرستوں نے کِیا ہے قتل لوگوں کو
کہیں زِندہ جلا ڈالا اِنہیں نے بے گُناہوں کو
کہیں معصوم بچّے ہو کئے زخمی کہیں چھلنی
یقینا موت تڑہی ہوگی سُن کر اُنکی آہوں کو
کِسی کی مانگ اُجڑی ہے ، کِسی کی گود اُجڑی ہے
کوئی سارا اثاثہ زِندگی کا کھو کے بَیٹھا ہے
کِسی کے چہرے پر پتھرائی آنکھوں سے یہ ظاہِر ہے
کہ یہ سارا اُجالا زِندگی کا کھو کے بَیٹھا ہے
پسِ دیوارِ مذہب ہیں سیاسی بھیڑیئے بَیٹھے
چُھپا کر اصل چہرہ دھرم کا جو کام کرتے ہیں
نہ اِنکو بابری مسجد نہ مندر رام کا پیارا
عُروسِ ہِند کی عظمت کو جو نیلام کرتے ہیں
بہاریں آہیں بھرتی ، ہاتھ مَلتی لَوٹ جاتی ہیں
چمن میں قومی یکجہتی کے خیمہ زن خزائیں ہیں
بِکھرتے جا رہیں بال و پَر سونے کی چِڑیا کے
نہ جانے اِس کو لگتی جاتی کِس کی بَد دعائیں ہیں
تقاضا وقت اور حالات کا ہے جو اُسے سمجھو
سُنو ! اے پیار سے پیارے وطن والو چلو آؤ
نہ بَیٹھو مُوند کر آنکھوں کو ، دیکھو اور بڑھو آگے
مُحافِط دیش اور قانون کے بنتے چلے جاؤ
چڑھا کر دھرم کو لوگوں نے سُولی پر سیاست کی
اخوت ، دوستی ، اِنسانیت سب کچ کُچل ڈالا
دِلوں کے بیچ اب یہ فاصلے بڑھتے ہی جاتے ہیں
کہ اِن موقع پرستوں نے مزاجوں کو بدل ڈالا
کِیا زر خیز جِس دھرتی کو خوں دے کر شہیدوں نے
اسے کچھ ذہن و دِل کے کالوں نے بنجر بنا ڈالا
وطن اپنا مِثالی تھا کبھی جو سارے عالم میں
اسے کچھ سِر پِھروں نے بَد سے بھی بَد تَر بنا ڈالا
ہر اِک چوراہے پر جمہوریت کی لاش لٹکی ہے
درِ اِنصاف پر قانون کا پُتلا مُسلّط ہے
جہاں سب ہنستے گاتے تھے ، جہاں تھیں رَونقیں کل تک
نیازؔ آج ان گلی کوچوں میں سنّاٹا مُسلّط ہے