ازقلم:۔ پروفیسر ابوزاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm)
سرور کائنات کی آمد سے قبل انسان کو اس راستہ کی پہچان نہ تھی جو اسے اس کے مالک حقیقی تک لے جائے ، نہ اس میں حق کی تائید کرنے کی صلاحیت موجود تھی اور نہ ہی وہ باطل کی مخالفت کرنے کی ہمت و جرات کرسکتا تھا، اور نہ ہی اسے اعمال صالحہ کی توفیق نصیب ہوتی تھی جس سے اس کا روحانی ارتقا ہوسکے۔ کفر و شرک کی نحوستوں میں غرق اور جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ایسے انسانی معاشرے کو شاہراہ رشد و ہدایت پر لانے کے لیے اللہ تعالی نے اپنے حبیب مکرمؐ کو تعلیم و تربیت کی بنیادی ذمہ داریاں تفویض کرکے معلم انسانیت بناکر مبعوث فرمایا جو اللہ تعالی کی اپنے بندوںپر سب سے بڑی نعمت بلکہ تمام نعائم کی اصل ہے چونکہ آپؐ ہی کی آمد سے انسانیت گمراہی و تباہی سے محفوظ ہوسکی ہے۔ عرب کی جہالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک شاعر نے شعر کہتے ہوئے کہا کہ ہمارے خلاف کوئی جاہلیت نہ کرنا ورنہ ہم تم سے زیادہ بڑے جاہل ہیں۔ بس اس شعر پر عرب کے تمام قبائل نے اس شخص کو اپنا سب سے بڑا شاعر تسلیم کرلیا ۔ سرور کونین ؐ کی ولادت باسعادت سے قبل عرب کا معاشرہ تعلیمی، اخلاقی، مذہبی، روحانی، معاشی،معاشرتی،سیاسی الغرض ہر لحاظ سے تباہ و تاراج ہوچکا تھا جس کے سبب اس دور کو زمانہ جاہلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسے عالم میں مسلمانوں نے قرآنی ارشادات اور صاحب قرآن ؐ کی ذات ستودہ صفات و اوصافِ جلیلہ و مرضیہ اور دین اسلام کے عطا کردہ اصول تعلیم و تربیت کی روشنی میں اپنے افکار و خیالات، افعال و اعمال اور اخلاق کردار کو نورِ ایمانی سے مزین کیا اور فتح مکہ کے بعد اس دور کا خاتمہ کیا۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رب ذو الجلال ارشاد فرماتا ہے ’یقینا بڑا احسان فرمایا اللہ تعالی نے مومنوں پر جب اس نے بھیجا ان میں ایک رسول انہیں میں سے پڑھتا ہے ان پر اللہ کی آیتیں اور پاک کرتا ہے انہیں اور سکھاتا ہے انہیں قرآن اور سنت اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘۔اس آیت پاک کا قابل غور حصہ یہ ہے کہ رب نے فرمایا ہم نے مومنین پر بہت بڑا احسان کیا کہ اپنے رسول انہیںمیں سے مبعوث فرمایا حالانکہ آپؐ کی بعثت تمام انسانیت پر اللہ تعالی کا احسان عظیم ہے ۔ مومنین کا ذکر بطور خاص کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے علمائے اعلام فرماتے ہیں چونکہ آپؐ کی تعلیمات اور آپؐ کے اسوہ حسنہ سے مومنین ہی عملی طور پر زیادہ مستفید ہوتے ہیںاسی لیے مومنین کا ذکر کیا گیا ہے۔لیکن صدحیف کہ آج مسلمانوں کی اکثریت نے بعثت مصطفیؐ کے بنیادی مقاصد و اہداف یعنی تعلیم و تربیت کی اہمیت و افادیت کو عملی طور پر نظر انداز کردیا ہے جو تعمیر شخصیت کے بنیادی عوامل ہیں۔ جب تک مسلمانوں نے تعلیم و تربیت سے اپنا اٹوٹ رشتہ قائم رکھا دنیا نے مسلمانوں کی عظمتوں کو سلام کیا اور انہیں اپنا پیشوا بنایا لیکن جب سے مسلمانوں نے تعلیم و تربیت سے اپنا ناطہ توڑ لیا ان کے افکار، افعال، اعمال ، اخلاق اور کردار میں گراوٹ آنی شروع ہوگئی نتیجتاً مسلمانوںکی حکومتیں زوال پذیر ہونے لگیں، اسلامی تہذیب و ثقافت مٹنے لگیں، تعلیمی پسماندگی میں اضافہ ہونے لگا، غربت عام ہونے لگی، بے شمار خرابیوں اور برائیوں سے اسلامی معاشرے کی اخلاقی اقدار اور خصوصیات پامال ہونے لگیں ،فرشتہ صفت انسان درندگی کے حدوں کو پار کرنے لگا، دنیا کو آئین جہانبانی سکھانے والی قوم کو حاشیہ پر ڈالکر اس قدر مجبور و لاچار بنادیا گیا کہ فسطائی و صیہونی طاقتیں ہزارہا معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کے خون کو پانی کی طرح بہا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود مسلم حکمرانو ںمیں ان کا دفاع کرنا تو درکنار مسلمانوں حکمرانوں میں ان وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی ہمت و طاقت بھی باقی نہ رہی اور ان لوگوں نے خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ الغرض تعلیم و تربیت کی اہمیت و افادیت کو فراموش کرنے کے باعث مسلم معاشرے پر زمانہ جاہلیت کی گہری چھاپ نظر آنے لگی جس کو مٹانے کے لیے محسنِ انسانیتؐ کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی تھی۔ رسول انقلاب کی آمد کے جشن کو ظاہری افعال و اعمال تک محدود رکھنا بہت بڑا ظلم ہے۔ چونکہ جشن میلاد النبیؐ کو صرف جلسے منعقد کرنے اور جلوس نکالنے تک محدود رکھنا بعثت مصطفیؐ کے بنیادی مقاصد کو فوت کرنے کے مترادف ہے۔ موحد اعظم اور معمار کعبہ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ نے کعبۃ اللہ شریف کی تعمیر کے دوران رب کریم کے حضور التجا کی کہ میری اولاد میں ایسے عظیم الشان رسول کو مبعوث فرما جس کی تعلیم و تربیت سے پوری انسانیت فائدہ اٹھاسکے۔ جشن میلاد پاک کا بنیادی تقاضہ یہی ہے کہ کارہائے نبوت بالخصوص تعلیم و تربیت کو قولی، عملی اور روحانی طور پر آگے بڑھایا جائے۔ ایک زمانہ تھا جب تعلیم اور شفا خانوں کا شمار غیر منفعت بخش اداروں میں ہوتا تھا لیکن آج سب سے زیادہ منفعت بخش تجارت اگرکوئی ہے تو وہ تعلیمی ادارے اور دواخانے ہیں۔ انتہائی کرب و الم کے ساتھ ان سطور کو سپرد قلم کرنا پڑ رہا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہے۔ یہ وہی قوم ہے جس کے نبیؐ نے انصار کے بچوں کو لکھنا سکھانے کے عوض غزوہ بدر کے جنگی قیدیوں کو آزاد فرمایا دیا تھا۔ انہی میں سے بعض بچے ایسے ہیں جو نوجوان ہوکرقرآن مجید کی کتابت کی جس کی وجہ سے قرآنی علوم کی اشاعت میں مدد ملی اور امت مسلمہ میں جید علماء مفسرین، محدیث، فقہائ، صوفیائ، فلاسفہ اور ماہرین فنون پیدا ہوئے۔ یہ ہے تعلیم کی اہمیت و افادیت جسے مسلمانوں نے یکلخت نظر انداز کردیا ہے جس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ آج ہم نے تعلیم کو تجارت بنادیا ہے اور اولیاطلباء سے من مانی فیس لے رہے ہیں جس کے دوہرے نقصانات امت مسلمہ کو جھیلنے پڑ رہے ہیں ایک طرف تعلیم کو تجارت بنانے کی وجہ سے مالدار بننے لوگ اسراف و دیگر خرابیوں کا شکار ہورہے ہیں تو دوسری طرف مفلوک الحال لوگ تعلیم سے محروم ہورہے ہیںجس کے منفی اثرات مسلم بلکہ انسانی معاشرے پر مرتب ہورہے ہیں اور معاشرہ میں برائیاں عام ہورہی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دینی مدارس دین کے قلعہ ہیںاور ان دینی مدارس کے احسانات امت مسلمہ پر بے شمار ہیں لیکن نفس پرستی اور ہمارے بداعمالیوں نے دینی مدارس کے نظام کو بھی متاثر کیا ہے۔ مسلم معاشرے میں بہت سارے حفظ اور دینی تعلیم کے مدارس ایسے لوگ چلارہے ہیں جو خود حافظ اور تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ ایسے افراد دینی مدارس صرف اس لیے چلاتے ہیں تاکہ وہ زکوٰۃ ، صدقات اور خیرات کے نام پر پیسہ بٹورسکیں۔ایسے دینی مدارس سے امت مرحومہ کو دو طرح سے نقصان ہورہا ہے۔ ایک تو یہ کہ زکوٰۃ ، صدقات اور خیرات کی رقومات مستحقین کے بجائے جعل ساز لوگوں کو پہنچ رہی ہے دوسرے یہ کہ ایسے مدارس میں پڑھنے والے طلباء کا تعلیمی معیاربہت پست ہوتا ہے چونکہ ایسے مدارس کے طلباء کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے سے زیادہ مختلف حوالہ سے منعقد ہونے والی قرآن خوانی کی محافل کی نذر کردیا جاتا ہے جس کے عوض ناظم مدرسہ کو پیسہ ملتے ہیں۔ اس غلط روش کی وجہ سے طلباء نہ تعلیم پر توجہ مرکوز کرپاتے ہیں اور نہ ہی تعلیم میں مہارت حاصل کرپاتے ہیں۔ ایسے طلباء نہ صرف تعلیمی پسماندگی کی شرح میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں بلکہ غربت میں بھی اضافہ کے باعث بنتے ہیں۔ جس طرح دنیا پرستی او رمفادپرستی نے مسلمانوں کے تعلیمی نظام کو بڑی حد تک غیر کارکردبنادیا ہے اس سے کہیں زیادہ دنیاوی لذات کے نشے نے مسلمانوں کے تربیتی نظام اور مراکز کو نقصان پہنچایا ہے۔ چونکہ تعلیم کی کمی کو تربیت پورا کرسکتی ہے لیکن تربیت کی کمی کی بھرپائی تعلیم سے بھی ممکن نہیں۔ والدین کا اسلامی نہج پر بچوں کی تربیت نہ کرنا، نوجوان نسل کا دینی تعلیم و اخلاق سے دور ہونا اور کثرت سے سوشیل میڈیاکا استعمال کرنا یہ وہ عناصر ہیں جس کے ناقابل تلافی منفی اثرات نئی نسل اور معاشرہ پڑ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں خانقاہیں جہاں کسی زمانہ میں سخت ریاضات و مجاہدات کے ذریعہ سالک کی تربیت کا اعلی پیمانے پر نظم ہوا کرتا تھا اب بیشتر خانقاہیں خرافات اور رسومات کی آماجگاہ بن کررہ گئی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب بادشاہان وقت خانقاہ میں حاضر ہونے کے لیے صوفیاء کرام سے انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ منت و سماجت کرتے اور پے درپے درخواستیں بھیجتے اب یہ عالم ہوگیا ہے کہ کسی خانقاہ میں کسی ادنی درجہ کے سیاسی قائد کی حاضری ہوجاتی ہے تو صاحب خانقاہ اپنی قسمت پر ناز کرنے لگتے ہیں۔ سنین ماضیہ میں علم و عمل، خلوص و للہیت، تقوی و طہارت ، اعلی اخلاق اور کردار کی پاکیزگی پیر کامل کے لیے بنیادی شرائط تصور کیے جاتے تھے آج پیر کامل کی پہچان مال و دولت، اثر و رسوخ اور شہرت بن کر رہ گئی ہے۔ ایسے عالم میں تربیت کا تصور بھی کیسے کیا جاسکتا ہے؟ جب تربیت کا فقدان ہو تو مسلم اور غیر مسلم کے افعال و اعمال میں فرق کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ امت مرحومہ کو اغیار سے زیادہ نقصان تربیت سے محروم غیر ایماندار مسلمانوں سے ہوا ہے۔امت مسلمہ کی تعلیمی پسماندگی اور غربت کے لیے ہندوستان بھر میں وقف بورڈ میں کام کرنے والے وہ غیر ایمان دار اشخاص ذمہ دار ہیں جنہوں نے اصول و ضوابط، خوف خدا اور آخرت میں جوابدہی کے احساس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض اپنے سیاسی آقائوں اور سربراہوں کے اشارہ پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے مسلم قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔آج وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف مہم میں مسلمان بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جو بہت خوش آئند بات ہے لیکن وقف کی املاک کو حقیقی معنی میں بچانا ہے اور مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی اور غربت سے نکالنا ہے تو متنازعہ بل کی جس طرح مخالفت ہورہی ہے اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر وقف بورڈ میں کام کرنے والے غیرایماندار اشخاص کے خلاف مسلمانوں کو متحدہ طور پر صدائے احتجاج بلند کرنا ہوگا۔ اور یہ کام اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب ہم تعلیم و تربیت پر خاص توجہ مرکوز کریں گے۔ لہٰذا مسلمانوں کو جشن میلاد النبیؐ مناتے وقت یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم زندگی کی تمام آرزئوں ،تمنائوں، خوشیوں اور مسرتوں کو قربان کردیں گے لیکن اپنا ناطہ تعلیم و تربیت سے کبھی نہیں توڑیں گے چونکہ جب تعلیم و تربیت یافتہ انسان جہالت سے علم کی طرف، بداعمالیوں سے اعمال صالحہ کی طرف اور بد اخلاقی سے حسن اخلاق کے طرف آتا ہے تو یقینا وہ دن ، وہ لمحہ اس کے لیے حقیقی خوشی کا ہوتا ہے جس پر وہ جتنا خوشی کا اظہار کرے کم ہے اور یہ تمام خوشیاں میلاد مصطفیؐ کے صدقہ و طفیل میں انسان کو ملی ہیںاسی لیے عاشقان مصطفیؐمیلاد النبی ؐ کی خوشی مناتے ہیں۔آج مسلمانوں پر لازم ہے کہ جشن عید میلاد النبیؐ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یہ معلوم کرنے سے زیادہ جشن میلاد النبیؐ کے تقاضوں پر توجہ مرکوز کریں تاکہ انسانی معاشرے میں سیرت النبی ؐ کے مطابق انقلاب لایا جاسکے۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔