تحریر: تابش سحر
پیغمبرِ عالیشان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ایک مسلمان کے لیے اس کی جان، مال عزت و آبرو غرض ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔ کمالِ ایمان کی علامت یہی ہے کہ دل میں مصطفیٰؐ کی محبت تمام تر خونی و جذباتی رشتوں سے بڑھ کر ہوں۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں کوئی ملعون گستاخی کا مرتکب ہوں تو ہر مسلمان کا دل زخموں سے چور ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے، جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہیے، خون گرماتا ہے، روح بےچین ہوتی ہے، غیرت کا لاوا پکتا ہے اور مجرم و گستاخ کی دنیوی سزا کا مطالبہ زور و شور سے ہوتا ہے اور یہی ہونا بھی چاہیے کہ یہ غیرت کا ادنیٰ تقاضہ بھی ہے۔ ماضی قریب کی بات ہے جب کبھی فرانس، ڈنمارک اور دیگر مغربی ممالک میں توہینِ نبیؐ سے متعلق کوئی ہنگامہ بپا ہوا تو ہندی مسلمانوں نے بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح زور و شور سے احتجاج بلند کرکے اپنی ناراضی اور غم و غصے کا احساس دلایا مگر بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم ناموس رسالتؐ کے موضوع پر ادنیٰ غیرت کا مظاہرہ بھی نہ کرسکے۔ مسلمانوں کے سیکولر سیاسی آقاؤں نے اس حساس موضوع کو لائقِ اعتنا نہ سمجھا کیوں کہ وہ ہم ہی ہیں جو بزدلی اور خوف کی وجہ سے اپنے حبیبؐ کے لیے کھڑے نہ ہوسکے۔ قانون کے رکھوالوں نے اس گستاخ و خبیث کو گرفتار نہیں کیا کیوں کہ وہ ہم ہی ہیں جو آقاؐ کی محبّت کا حوالہ دے کرسڑکوں پر نہیں اترے۔ ہماری مصلحت کا تو یہ عالم ہے کہ جلوسِ میلاد النبی بھی یہ دیکھ کر مؤخر کیا جاتا ہے کہ برادرانِ وطن کا کوئ تہوار بھی اسی دن ہے۔ میں یہاں جلوس کی وکالت نہیں کررہا اور نہ ی کوئی شرعی مسئلہ چھیڑنا چاہتا ہوں میرا مقصود یہ بتانا ہے کہ ہماری محبّت کھوکھلی ہے، زبانی ہے، ادھوری و ناقص ہے۔ کامل محبّت’ اتباع پر ابھارتی ہے اور ناموسِ رسالت پر مرغِ بسمل کی طرح تڑپاتی ہے۔
ہم نے کوئی قابلِ قدر احتجاج نہیں کیا، مصطفیؐ کے دیوانوں نے آواز لگائی ہم لبیک کہنے قاصر رہے، ہمارے اپنے شہر اورنگ آباد میں شاہین باغ طرز کا احتجاج جاری ہے ہم حاضری نہیں لگا پارہے، حکومت کی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کروا رہے۔ وہ تو بھلا ہو سابق رکنِ پارلیمان اور سیاسی جماعت ایم آئی ایم کے ریاستی سربراہ جناب امتیاز جلیل صاحب کا جنہوں نے صبح کی اولین ساعتوں میں ہزاروں عشّاقِ نبی کی معیت میں ممبئی کا رخ کیا اور اس حساس موضوع کو ہلکے میں نہ لینے کا پیغام دیا۔ امّت کا ہر فرد آزاد ہے وہ جناب امتیاز صاحب سے فکری اور سیاسی اختلاف کرسکتا ہے مگر مصطفیؐ کے نام پر نکلنے والے قافلے کو ہدفِ تنقید نہیں بناسکتا بلکہ ہر فردِ امّت پر لازم ہے کہ وہ قافلے کے حفظ و امان اور بامراد لوٹنے کی دعا کریں۔ امتیاز صاحب کا مقصد سیاسی مفاد بھی ہوں تب بھی ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں کیوں کہ مسئلہ ناموسِ رسالت کا ہے۔
جناب امتیاز جلیل صاحب سے بھی ادباً گزارش ہے کہ ملّی موضوع کو ملّی شان و عظمت ہی کے ساتھ اجاگر کریں اور اپنے قافلے کو شریعتِ مطہرہ کے سائے ہی میں چلنے اور لوٹنے کی تعلیم دیں۔