صحابہ کرام مجاہدین اسلام

دنیا کا سب سےبڑا جرنیل؛ حضرت خالد بن ولید

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا اور دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

تاریخ ایک سے ایک سورماؤں اور بہادر جنگجوؤں سے بھری پڑی ہے- مگر اسی خاک دانی پر ایک ایسی ہستی نے بھی جنم لی ہے،جس کی سوانح حیات کو پڑھکر اپنے تو اپنے ھیں، غیر بھی اس کی بہادری،شجاعت، ہمت و جرأت کی تعریف میں اپنی زبان کو ہمہ وقت رطب اللسان رکھتے ہیں- بلکہ بہادری اور شجاعت کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ دس گیارہ سال کے عمر میں ایک فوجی میلہ میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ آپ نے کشتی لڑی، جس میں سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ٹانگ توڑ ڈالی- وہ تاریخ انسانیت کا ایک ایسا جرنیل تھا، جس کے مثل آسمان دنیا نے نہ آج تک دیکھا ہے اور نہ صبح قیامت تک دیکھے گی، اور رعب و دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ وہ مرد مجاہد جس جنگ میں قدم رکھتا تھا اس جنگ کے بڑے بڑے سورما لشکر جرار کے سائے تلے چھپنے لگتے تھے، اور وہ جنگ صرف اس کے نام سے کامیابی کی ضمانت بن جایا کرتی تھی- چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ہرمز جیسا پہلوان جس کو جنگ تاریخ میں ایک ہزار بہادروں کے برابر سمجھا جاتا تھا اور جس کے پہلوانی کی شہرت کے ڈنکے مصر اور عراق میں بجتے تھے، اس کے مقابلے میں بڑا سے بڑا پہلوان آنے سے ڈرا کرتا تھا، مگر اس جیسا پہلوان جب مجاہد خاتم النبیین کے مقابلے میں آیا تو یوں لگا جیسے کوئی مکھی یا مچھر گر گئی ہو- تاریخ کے اوراق اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی کی ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ مرد مجاہد اپنی ستاون برس کی عمر میں تقریباً سو سے زائد میدان جنگ میں شرکت کی، مگر اللہ عزوجل نے ہر جنگ کی فتح و نصرت کا جھنڈا اسی کو عطا فرمایا تھا، جس نے ملت اسلامیہ کی سرحدوں کو آدھی دنیا تک پہنچا دیا تھا، جن کا وجود فتح کی علامت، نصرت کا نشان، مسلمانوں کی آن، مجاہدین کی شان تھا- ہم بات کر رہے ہیں اس ذات کے بارے میں جس نے اپنی پوری زندگی میں کوئی بھی جنگ ہارا ہی نہیں تھا، شجاعت و بہادری، ہمت و جرأت و دلیری میں بے مثل و بے مثال تھا، ہاں! ہاں! آپ نے صحیح جانا، ہم بات کر رہے ہیں اس شخصیت کے بارے میں جس کو دنیائے تاریخ جرنیل اعظم، فارس الاسلام، قائد المجاھدین، خالد بن ولید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں ” سَیْفُ مِنْ سُیُوْفِ اللّٰه” اللہ کے تلواروں میں سے ایک تلوار کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے –
حضرت خالد بن ولید قبیلہ مخزوم کے چشم وچراغ تھے، ان کی پرورش اور تربیت بڑی لاڈ اور پیار سے ہوئی تھی- اس سلسلے میں ایک بہت ہی پیارا واقعہ میرے معلومات کے ذہن کے دروازے پر دستک دے رہا ہے- چنانچہ! ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارگاہ میں حضرت خالد بن ولید کی شکایت کی، تو سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اے خالد اس کو کیوں ستاتے ہو جو بدری صحابی ہیں؟ تو جواباً حضرت خالد بن ولید نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی مجھے کبھی کبھی ستاتے ہیں، یہ سنتے ہی سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرے اقدس پر جلال باری کے آثار ظاہر ہوگئے اور سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا” لاَ تُوذِیْ خَالِداً فَاِنَّهٗ سَيْفُ مِنْ سُيُوفِ اللّٰه” تم میں سے کوئی خالد کو تکلیف نہ دے کیونکہ وہ اللہ کے تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں- یعنی کوئی خالد بن ولید کو تکلیف دے یہ سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہرگز گوارا نہیں، اور یہی خالد بن ولید ہیں جن کے قبول اسلام کے وقت سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زبان فیض ترجمان سے یہ جملہ جاری ہوا تھا کہ "اے لوگو آج مکہ نے اپنے گوشۂ جگر کو ہمارے طرف پھینک دیا ہے-"
ایمان ہو تو ایسا:
چنانچہ ایک مرتبہ کسی جنگ کے موقع پر کچھ کفار نے حضرت خالد بن ولید سے کہا کہ اسلام کی حقانیت اور صداقت پر کوئی واضح دلیل پیش کیجیے تاکہ ہم بھی مسلمان ہو جائیں- آپ نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک بہت ہی خطرناک زہر ہے آپ نے ان سے وہ زہر کا پیالہ لیا اور یہ کہا کہ میرا ایمان ہے کہ زہر سے موت واقع نہیں ہوتی بلکہ موت اور زندگی اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے اور ” بِسْمِ اللّٰهِ الَّذِي لاَيَضُرُّ مَعَ سْمِهٖ شَيْئٌ فِي الْاَرْضِ وَ لاَ فِي السَّمَاءِ وَهُوْ السَّمِيْعِ الْعَلِيْمُ” پڑھکر پی گئیے، اور اللہ عزوجل کے حکم سے صحیح و سالم کھڑے رہے، یہ دیکھ کر دشمن اسلام حیرت زدہ رہ گئے-

خالد بن ولید کا پیغام امت مسلمہ کے نام

1- زندگی سے زیادہ مجھے موت پسند ہے۔
2- جب موت مقدر ہو تو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے گلے مل جاتی ہے۔
3- زندگی سے زیادہ کوئی جی نہیں سکتا اور موت سے زیادہ کوئی مر نہیں سکتا دنیا کے بزدلوں کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر میدان جہاد میں موت ہوتی تو اس خالد بن ولید کو موت بستر پر نہ آتی۔
4- خدا جسے تباہ کرنا چاہتا ہے اسے عیش و عشرت میں ڈال دیتا ہے۔
5- مجھے گھر سے زیادہ میدان جنگ میں رہنا پسند ہے۔

از قلم:- بدرالدجیٰ امجدی تلسی پوری
استاذ:- جامعہ امیر العلوم مینائیہ سرکلر روڈ، مینا نگر گونڈہ یو پی271002 انڈیا

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے