ڈاسنہ [غازی آباد، یوپی] کے بد زبان پجاری نرسنگھانند کی ہذیان وبکواس سے اہل اسلام کے دل زخمی ہیں۔جابجا احتجاجی جلوس/مظاہرے/میمورینڈم اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔علما سے لیکر عوام تک سخت غم وغصے میں ہیں، لیکن پولیس انتظامیہ اور حکومت ہمیشہ کی طرح لاتعلق بنی ہوئی ہے۔اسی وجہ سے آج تک درجنوں ایف آئی آر اور مقدمات کے باوجود نرسنگھا آزاد اور بے لگام گھوم رہا ہے۔ضرورت ہے کہ ہم پورے پس منظر کو اچھی طرح سمجھیں اور اسی کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کریں تاکہ ایسی گستاخیوں کو روکا بھی جا سکے اور بد زبانوں کو سخت سزا بھی دلائی جا سکے۔
جیسا مرض ویسا علاج
نرسنگھا کی حالیہ گستاخی نہ تو پہلی ہے، اور لگام نہ دی گئی تو آخری بھی نہیں ہوگی۔اس کے خلاف اب تک ملک کے مختلف حصوں میں پچاس سے زیادہ کیس رجسٹرڈ ہیں۔یہ بد زبان ایسے مقدمات میں بھی ماخوذ ہے جس میں اس کے ساتھ ملوث دوسرے لوگوں کی گرفتاری ہو چکی ہے پھر بھی یہ اوباش مَرکَھنا بَیل بنا گھوم رہا ہے۔سوال اٹھتا ہے آخر پولیس اسے گرفتار کیوں نہیں کرتی؟جواب بے حد سادہ ہے؛
"حکومت اسے گرفتار کرنا ہی نہیں چاہتی”
حکومت چاہے تو چند گھنٹوں میں اسے گرفتار کرلے۔ایسی دفعات لگا دے کہ سالوں سال ضمانت نہ ملے مگر حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں، کیوں کہ نرسنگھا کی بدتمیزیوں سے حکومت کو سیاسی فائدہ مل رہا ہے۔اس لیے جب تک حکومت کو فائدہ مل رہا ہے تب تک اسے لگام دینا بڑا مشکل کام ہے، لیکن ہمیں خاموش نہیں بیٹھنا ہے، بس ذرا سا طریقہ کار بدلنا ہے۔کیوں کہ یہ ثابت ہو چکا کہ اس کی بدزبانی کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو ہمیں بھی اسی میدان کا استعمال کرکے علاج بالمثل کے فارمولے پر عمل کرنا ہوگا۔سیاسی فائدے کی کاٹ سیاسی نقصان ہے۔جب تک سیاسی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا تب تک سیاسی پارٹیوں کو اس کی بد زبانی سے کوئی دقت نہیں ہے۔اگر اسے لگام ڈالنا ہے تو سیاسی پارٹیوں کو سبق سکھانا ہوگا۔
سیاسی نقصان کا طریقہ
کسی بھی سیاسی پارٹی کو چوٹ کرنے کے دو طریقے ہیں:
1۔اس پارٹی کو ووٹ/سپورٹ بند کر دی جائے۔
2۔اس کی حلیف پارٹیوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔
عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں کرتے مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے گذشتہ پارلیمانی الیکشن میں ملکی سطح پر بی جے پی کو مسلمانوں کا آٹھ فیصد ووٹ ملا ہے۔کسی بھی الیکشن میں ایک یا دو فیصد ووٹ بھی فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے یہاں تو بی جے پی ملکی سطح پر آٹھ فیصد ووٹ سمیٹ رہی ہے۔صوبائی سطح پر دیکھا جائے تو گجرات میں 29 فیصد، مہاراشٹر میں قریب دس فیصد، راجستھان میں تقریباً پانچ فیصد، بنگال میں چار فیصد اور یوپی میں لگ بھگ ڈھائی فیصد ووٹ بی جے پی کے کھاتے میں گیا ہے۔مسلمان بی جے پی پر اس ووٹ فیصد کا دباؤ کیوں نہیں بنا سکتے؟
🔸ملک کی بہت ساری مذہبی تنظیموں اور خانقاہی مشائخ سے بی جے پی ہائی کمان کے اچھے تعلقات ہیں۔ایسے افراد کو آگے آکر وزیر اعظم/وزیر داخلہ وغیرہ سے مل کر احتجاج، دباؤ اور فی الفور گرفتاری کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ان تنظیموں میں جمیعۃ علماء ہند، آل انڈیا علما مشائخ بورڈ دہلی، آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل اجمیر، بابا تاج الدین ٹرسٹ ناگپور وغیرہ نمایاں ہیں۔
مذہبی جماعتوں میں جمیعۃ علماء ہند کا سیاسی رسوخ سب سے زیادہ ہے۔یہ تنظیم عید ملن اور کانوڑ یاترا کیمپ جیسے انعقاد کرتی آئی ہے۔اس تنظیم کے صدر/سکریٹری وغیرہ کے وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ اَمِت شاہ اور آر ایس ایس صدر موہن بھاگوت سے سیدھے تعلقات ہیں۔بارہا ملاقاتیں ہوئی ہیں، ہوتی رہتی ہیں، اگر یہ لوگ نرسنگھا کی گستاخیوں کو لیکر ملاقات کریں تو یقیناً اثر ہوگا۔آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ کی سیاسی پکڑ بھی اچھی خاصی ہے، وزیر اعظم تک سیدھی پہنچ ہے۔عرس غریب نواز کی چادر وغیرہ کا ذمہ وزیر اعظم انہیں ہی سونپتے ہیں۔اگر بورڈ اس سلسلے میں اپنا رسوخ استعمال کرے تو امید ہے کہ ملاقات نتیجہ خیز ہوگی۔بابا تاج الدین ٹرسٹ ناگپور کی سیاسی پکڑ بھی اچھی خاصی ہے۔سینئر کابینہ وزیر نتن گڈکری تک سیدھی رسائی ہے یہ لوگ بھی اگر کوشش کریں تو اس مدے کو لیکر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔صوفی سجادہ نشین کونسل اگرچہ نئی تنظیم ہے مگر اس کا رسوخ بھی اچھا خاصا ہے۔حال ہی میں وقف ترمیمی بل پر حکومت کی حمایت کے لیے حکومت کے کئی وزرا سے ملاقاتیں کی ہیں۔بی جے پی ہائی کمان سے ان کے بھی سیدھے تعلقات ہیں۔اگر یہ بھی چاہیں تو ناموس رسالت کے لیے میٹنگ کرکے دباؤ بنا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ بہت سارے ایسے افراد بھی ہیں جن کے بی جے پی کے مختلف لیڈران اور وزرا سے ذاتی نوعیت کے تعلقات ہیں ان سب کو چاہیے کہ وہ اپنے تعلقات کو دفاع ناموس رسالت کے لیے ہر حال میں استعمال کریں۔کوئی بھی کاز یا مقصد، دفاع ناموس رسالت سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔اگر یہ تنظیمیں اس معاملے میں خاموش رہیں تو پھر ان کے رسوخ کا کوئی فائدہ ہے نہ ان کی حمایت کی کوئی ضرورت!
جو تنظیم یا فرد ہمارے آقا علیہ السلام کی ناموس کے لیے کھڑا نہیں ہوسکتا ہمیں اس کی رسوخ داری کی کوئی ضرورت نہیں۔
بی۔جے۔پی۔ کا ایک ذیلی شعبہ مائنارٹی ونگ (अल्प संख्यक मोर्चा) بھی ہے۔اس فورم میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو رکھا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو بی۔جے۔پی۔ سے جوڑا جائے۔ہر صوبے میں ضلع سے گاؤں تک اس کی کمیٹیاں کام کرتی ہیں۔ یہی لوگ زمینی سطح پر مسلمانوں کو بی۔جے۔پی۔ سے جوڑنے اور ووٹ دلانے کا کام کرتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ مسلمان اس مورچے کے ضلعی سطح سے ملکی سطح تک کے عہدے داران پر دباؤ بنائیں کہ جب ووٹ لیتے ہو تو گرفتاری کیوں نہیں کرا سکتے؟ اگر بی۔جے۔پی۔ ہائی کمان دباؤ نہ مانے تو مورچے کے لوگ میڈیا میں اجتماعی استعفیٰ دے کر پارٹی کو بے نقاب کریں۔ اگر بھاجپا کے مسلم ورکر اور عہدے داران تیار نہ ہوں تو ان کا سیاسی بائیکاٹ کیا جائے، کہ اگر ووٹ/سپورٹ چاہیے تو اپنے ہائی کمان کو ایکشن لینے پر مجبور کرو ورنہ بی۔جے۔پی۔ کا جھنڈا لے کر سیاست بند کرو۔ اگر دس پانچ شہروں میں بھی بی۔جے۔پی۔ کے اقلیتی مورچہ والوں کو چار ناچار اس پر تیار کر لیا گیا تو سمجھیں کافی حد تک کام ہوجائے گا۔
دوسرا بنیادی کام ان سیاسی پارٹیوں پر پریشر بنانا ہے جو مرکز یا صوبائی سطح پر بی جے پی کے اتحاد میں شامل ہیں۔ان پارٹیوں میں نتیش کمار کی جنتا دل یونائٹیڈ اور آندھرا کے وزیر اعلی چندر بابو نائڈو کی تیلگو دیشم پارٹی نمایاں ہیں۔ان دونوں ہی پارٹیوں سے مسلمانوں کی اچھی بڑی تعداد جڑی ہے۔مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ انہیں مسلسل ووٹ/سپورٹ دیتا آیا ہے۔دونوں ہی پارٹیوں میں کئی رسوخ دار مسلمان لیڈر بھی موجود ہیں اس لیے ان پارٹیوں کے ہائی کمان سے مل کر اپنے جذبات رکھے جائیں اور انہیں بی جے پی ہائی کمان پر دباؤ بنانے کے لیے سیاسی پریشرائز کیا جائے۔اگر یہ پارٹیاں بی جے پی پر سیاسی دباؤ بنائیں تو چند گھنٹوں میں اس ملعون کی گرفتاری اور علاج ہوسکتا ہے۔بصورت دیگر اگر وہ سیکولر پارٹیاں حیلہ حوالی کریں تو ان کا بائیکاٹ کیا جائے تاکہ مسلمانوں کے جذبات نہ سمجھنے کا نتیجہ مل سکے۔
اپوزیشن پارٹیوں سے بھی سوال کریں
ملک میں موجود اپوزیشن پارٹیوں نے مسلمانوں کا سب سے زیادہ ووٹ/سپورٹ حاصل کیا ہے۔سی ایس ڈی ایس سروے کے مطابق مسلمانوں کو 80 فیصد ووٹ اپوزیشن پارٹیوں یعنی انڈیا بلاک کو ملا ہے۔جس کی بدولت یوپی جیسے صوبے میں انڈیا بلاک [سماج وادی+کانگریس] کو 43 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔لیکن اس موقع پر دونوں ہی پارٹیاں منظر نامہ سے غائب ہیں۔یوپی کے مسلمانوں کو چاہیے کہ جن جن حلقوں سے انڈیا بلاک کے ممبران پارلیمنٹ جیتے ہیں ان سب سے ملاقات کریں۔اولاً مقامی تھانے میں مقدمہ درج کرانے، ثانیاً پارلیمنٹ میں آواز اٹھانے کا دباؤ بنائیں۔اگر وہ لوگ آنا کانی کریں تو انہیں کے گھروں پر پر امن احتجاج شروع کر دیا جائے۔اس ضمن میں معززین کا ایک بڑا وفد لکھنؤ میں سماج وادی، بنگال میں ٹی ایم سی، بہار میں آر جے ڈی، اور دہلی میں کانگریس پارٹی کے ہیڈ آفس پر یہی بات رکھے اگر وہ زمینی حمایت کریں تو بہتر ورنہ ان سے دو ٹوک لہجے میں بات کریں کہ جب ہمارا اسّی فیصد ووٹ آپ لے رہے ہیں تو ہمارے مدے پر خاموش کیوں ہیں؟
سیاسی پارٹیاں سیاسی زبان ہی سمجھتی ہیں اگر مفاد سے بالا تر ہوکر یہ کام کر لیا جاتا ہے تو یقین جانیے گا یہی پارٹیاں سڑک سے پارلیمنٹ تک آپ کی آواز اٹھاتی نظر آئیں گی۔اپوزیشن اور حکومت دونوں پر دباؤ بنے گا تو نرسنگھا جیسے بد زبانوں کو سخت دفعات میں جیل رسید ہوتے دیر نہیں لگے گی۔اگر اس محاذ کو سنجیدگی سے سنبھال لیا گیا تو یقین جانیں آئندہ کسی گستاخ کی آسانی سے ہمت نہیں ہوگی۔
تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
5 ربیع الثانی 1446ھ
9 اکتوبر 2024 بروز بدھ