کرناٹک ہائی کورٹ نے گذشتہ دنوں ایک معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے انتہائی نامناسب فیصلہ صادر کیا کہ ”مسجد میں جبراً گھس کر اندر ہندوؤں کا مذہبی نعرہ ’جئے شری رام‘ لگانے سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچتی ہے“۔ عدالت کا یہ فیصلہ منظر عام پر آنے کے بعد ملک کے مسلمان طبقے میں بے چینی پھیلی نظر آرہی ہے اور بے چینی ہو بھی کیوں نا کہ یہ فیصلہ جہاں ایک طرف نہایت احمقانہ و بچکانہ ہے وہیں دوسری طرف ملک کے امن و امان کے لیے زہر ہلاہل سے کم بھی نہیں۔
عدالت نے یہ فیصلہ کس قانون و قاعدے کے مطابق سنایا اس کا جواب تو عدالت ہی دے گی مگر جس جج صاحب نے یہ فیصلہ صادر کیا ہے ان سے فقط دو(۲) سوال ہیں؛
اول تو یہ کہ اگر کوئی شخص آپ کے گھر میں جبراً گھس کر آپ کے گھر والوں کو کسی بھی مذہب کی تعلیم دینے لگے تو کیا آپ تماشہ دیکھیں گے؟ آپ کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں گے؟ آپ کے مذہبی معاملات میں خلل واقع نہ ہوگا؟ ہوگا، یقینا ہوگا۔ بلکہ آپ تو اس پر کئی دفعات لگوا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈلوادیں گے؛ مثلاً جبراً کسی کے گھر میں گھسنے کا دفعہ، کسی کی پرائیویسی(رازداری) میں دخل اندازی کرنے کا دفعہ، سماج کا ماحول خراب کرنے کا دفعہ، آپ کے مذہب کی توہین کا دفعہ اور سب سے اہم تبدیلی مذہب کا دفعہ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی دفعات (جنھیں آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے؟) لگوا دیں گے۔
پھر جب کوئی شخص کسی کے خاص مذہبی مقام بالخصوص عبادت گاہوں میں جبریہ گھس کر دوسرے دھرم کا مذہبی نعرہ لگا دے تو اس سے کسی کے مذہبی جذبات و احساسات مجروح نہ ہوں یہ کیسا انصاف ہے؟
دوسرا اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے فیصلہ صادر فرماتے وقت ذرہ برابر بھی دور اندیشی کا مظاہرہ کیا؟ کہ آپ کے اس فیصلے سے ملک کے امن و امان کو کتنا بڑا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؟ آپ کو اس بات کی خبر نہیں کہ ملک میں آئے دن کتنے دنگے اور فساد رونما ہورہے ہیں؟ پھر بھی آپ نے یہ فیصلہ سنا دیا؟؟؟
ذرا سوچیں!!!
ہر قوم اور ہر طبقے میں کچھ لوگ عموماً نوجوان عمر کے افراد کافی جوشیلے اور جذباتی ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ آپ کے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر کوئی نوجوان ملک کے کسی مسجد میں گھس جائے اور اندر ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگا دے تو ظاہر سی بات ہے کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہی ہے لہذا اس نوجوان کے ساتھ کچھ انہونی ہوجائے تو کیا دنگے اور فساد برپا نہیں ہوں گے؟ پھر اسی طرح دو، چار شہروں میں ایسے ہی ناخوش گوار معاملات رونما ہو جائے تو کتنا جانی و مالی نقصان ہوگا اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگاسکتے، ملک میں امن و امان کا جنازہ ایک لمحے میں نکل جائے گا، ملک خانہ جنگی میں گھر کر تباہ و برباد ہو جائے گا۔
سکے کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ حادثہ برعکس ہوجائے اور خدانخواستہ کوئی مسلم نوجوان آپ کے اسی فیصلے کو بنیاد بنا کر یہ سوچ لے کہ ”جب مسجد میں گھس کر ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوتے تو مندر میں گھس کر ’اللہ اکبر‘ لگانے سے بھی کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچے گی“ اور کسی مندر میں گھس کر لگادے ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ، تو کیا ہمارے ہندو بھائیوں کے مذہبی احساسات کو ٹھیس نہیں پہنچے گی؟ ٹھیس پہنچے گی، ضرور پہنچے گی۔ اور ہوگا کیا؟۔۔۔ ملک کا میڈیا اس نوجوان کو طالبانی/پاکستانی/آتنکوادی/جہادی نہ جانے کیا کیا بنا دے گا، موقع کی طاق میں بیٹھیں فرقہ پرست تنظیمیں آسمان سر پر اٹھا لیں گی، مفاد پرست سیاسی لیڈران حواس باختہ ہوجائیں گے، پولیس انتظامیہ ایسی متحرک ہوگی کہ گویا دو،چار،دس لوگوں کا بہیمانہ و سفاکانہ قتل ہوگیا ہو، اے۔ٹی۔ایس۔ اور ایس۔ٹی۔ایف۔ والے سب حرکت میں آجائیں گے، اور خود آپ عدل و انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر مسلم نوجوان کی اس حرکت شنیعہ کو نہ صرف مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا قرار دیں گے بلکہ ملک کا امن و امان خراب کرنے والا، دنگا فساد پھیلانے والا اور ملک مخالف سرگرمیوں میں شمار کریں گے۔ اور موقع پرستوں کی جانب سے فتنہ فساد کا کبھی نہ تھمنے والا جو طوفان اٹھے گا سو الگ۔ اللہ کی پناہ!
اس لیے عدالت سے ادب و احترام کے ساتھ میری درخواست ہے کہ وہ اپنے مذکورہ فیصلے پر نظر ثانی کرے اور ملک کی عدالت عظمیٰ(سپریم کورٹ) بھی اس معاملے میں فوری طور پر از خود نوٹس لیتے ہوئے ضروری کارروائی عمل میں لائے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے اور ہمارے اس پیارے وطن کا امن و امان، چین و سکون، اتحاد و اتفاق سب ملیا میٹ ہوجائے۔
تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
چیف ایڈیٹر: ہماری آواز، گولا بازار گورکھ پور
9792125987