مرا ہم دم بھی مجھ سے بے خبر ہے
مرے حالات پر کس کی نظر ہے
غزل کی وادیوں میں کھو گیا ہوں
مجھے کچھ بھی نہیں اپنی خبر ہے
بدن پر قیمتی کپڑا نہیں ہے
مگر لہجہ بہت ہی پر اثر ہے
مجھے بہتر بنانے میں لگے ہیں
مرے کردار پر سب کی نظر ہے
میں اپنے آپکو کیسے سنبھالوں
اذیت سے بھرا میرا سفر ہے
ہیں کچھ مجبوریاں اسکی بھی اپنی
پرندہ جو ابھی تک شاخ پر ہے
غموں سے جو ہوا آزاد روشن
مری ماں کی دعاوں کا اثر ہے
افروز روشن کچھوچھوی