از قلم: محمد احمد حسن سعدی امجدی
گزشتہ دنوں ناچیز کے قلم سے اس مضمون کی پہلی قسط منظر عام پر آئی، الحمدللہ عوام و خواص سب نے اسے سراہا (اگر آپ پہلی قسط کو پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں) اور معاشرے میں اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے بعض حضرات نے فون پر اور بعض حضرات نے بذریعہ واٹس ایپ اپنا تاثر پیش کیا، میں ان تمام احباب کا بے حد شکر گزار ہوں اور ساتھ ہی ان کی بارگاہوں میں عرض کرتا ہوں کہ ہم اپنی طلاق شدہ یا بیوہ خواتین کے لیے فکرمند ہوں اور ان کی بے رنگ اور مایوس زندگی کو خوشحال بنانے کے لیے ہر جہت سے آگے بڑھیں۔
آج معاشرے میں مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کو معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن جب ہم حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کی طرف غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں یہ سب معیوب ہونا تو بہت دور بلکہ باعث اجر و ثواب سمجھا جاتا تھا اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسی عورتوں سے نکاح فرما کر قیامت تک کے لیے ان خواتین کے مقام و مرتبے کو بلند فرما دیا اور ان خوش بخت خواتین کو امہات المومنین سلام اللہ علیہن کے مقدس لقب سے سرفراز فرمایا ۔
اور دنیا والوں کو یہ پیغام دیا کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرکے ان کی زندگیاں آباد کرنا یہ معیوب نہیں بلکہ باعث اجروثواب ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں گیارہ عورتوں سے نکاح فرمایا، جن میں صرف ایک خاتون کنواری اور بقیہ سب مطلقہ یا بیوہ تھیں، جن کا ذکر حدیث کی بے شمار کتابوں میں مذکور ہے،
عن عائشة أم المؤمنين: تزوَّجَني رسولُ اللّهِ ﷺ ولم يتزوَّجْ بِكرًا غيري، ( أخرجه الطبراني (٢٣/٣٠))
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے نکاح فرمایا اور میرے علاوہ کسی کنواری سے نکاح نہیں فرمایا،
یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صرف ایک کنواری خاتون سے نکاح فرمایا اور وہ مبارک خاتون ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں، ان کے علاوہ بقیہ ازواج مطہرات میں بعض بیوہ تھیں اور بعض مطلقہ ۔
ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سے قبل ان کی دو شادیاں ہوچکی تھی ، ابن اسحاق کے مطابق حضرت خدیجہ کا پہلا نکاح عتیق بن عابد سے ہوا اور ان کے انتقال کے بعد دوسرا نکاح ابو هالة التميمي سے ہوا اور ان دونوں کے ذریعے حضرت خدیجہ کے بطن سے اولاد بھی ہوئی ان کے وصال کے بعد پھر آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت خدیجہ سے نکاح فرمایا اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر شریف چالیس سال اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی عمر شریف پچیس سال تھی۔
ام المومنین صفیہ بنت حُیَیْ بن اخطب رضی الله عنہا۔
ان کی پہلی شادی سلام بن منشور القرضی سے ہوئی، پھر سلام نے حضرت صفیہ کو طلاق دے دی، اور آپ كنانة بن ابی الحقیق کے نکاح میں آئیں ، جو جنگ خیبر میں قتل ہوا ، حضرت صفیہ جنگ خیبر میں گرفتار ہو کر آئیں، پھر حضور ﷺ نے انھیں آزاد فرما کر ان سے نکاح فرمایا۔
تو اس طریقے سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے علاوہ تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن مطلقہ یا بیوہ تھیں ، اور حضورﷺ نے از روۓ احسان اور لطف و مہربانی کے طور پر ان سے نکاح فرمایا، بلاشبہہ حضورﷺ کے اس عمل میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہوسکتی ہیں،اس میں کوئی شک نہیں ،لیکن سب سے واضح اور آشکار پہلو جو سمجھ میں آرہا ہے وہ یہ کہ حضورﷺ اپنے اس عمل سے اپنی امت کو ایک درس دینا چاہتے تھے اور یہ بتانا چاہتے تھے کہ اگر کسی خاتون کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے اور وہ مطلقہ یا بیوہ ہو جائے تو اسے منحوس سمجھ کر اس سے احتراز نہ کیا جاۓ، ان کو اسی حال پر چھوڑ دینے کے لیے اسلام ہرگز نہیں کہتا بلکہ اسلام تو اخلاق و مروت کا درس دیتا ہے، اسلام تو ہمیشہ پریشان حال کی غمخواری اور بےسہاروں کے لیے سہارا بننے کا درس دیتا ہے ، لہٰذا ایسے وقت میں اسلام اور انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ اس مجبور خاتون سے نکاح کیا جائے یا مناسب رشتہ دیکھ کر اس کا نکاح کرایا جائے۔
کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں سے نکاح فرمایا ہے، حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل گویا ہمارے لیے اب سنت بن چکا ہے اور ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت کو اپنے لیے باعثِ اجر و ثواب سمجھ کر جہاں تک ہوسکے عمل پیرا ہو اور دنیا اور آخرت کے نعمتوں سے بہرہ ور ہو۔
اور اگر معاشرتی زاویہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ مطلقہ یا بیوہ خواتین سے پرامن اور پاک و صاف معاشرے میں کافی برائیاں پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے، الا ماشاءاللہ جن کو اللہ حیا کی توفیق دے اور پاکدامنی عطا فرمائے وہ برائیوں سے بچ جاتی ہیں،
یہ بھی واضح ہے کہ ایک نئی عمر کی خاتون طلاق شدہ یا بیوہ جو چند دنوں یا سالوں قبل اپنے شوہروں کے ساتھ زندگی گزار رہی تھیں اب وہ تن تنہا ہے اور اللہ کا قرآن کہتا ہے کہ
ترجمہ : "بے شک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہوا ہے، (سورہ یوسف 12،آیت 5)
تو کیا بعید ہے کہ شیطان اس خاتون کو اپنے مکر و فریب میں پھنسا کر اسے گناہ کی طرف آمادہ کر دے، تو یہ برائی جراثیم کی طرح ہمارے پورے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لے کر جا سکتی ہے اور ہمارا معاشرہ برباد ہو سکتا ہے ۔ اہل خرد اس حوالے سے بخوبی واقف بھی ہوں گے۔
یا ممکن ہے کہ کوئی شہوت کا بھوکا اس بیچاری لاچار خاتون کو مال و دولت کا لالچ دے کر اس کی غریبی اور بے بسی کا فائدہ اٹھائے اور نا جائز طور پر اس کا جنسی استحصال شروع کر دے، جس سے معاشرے میں فساد پیدا ہوگا اور رفتہ رفتہ معاشرے کی رحمت و برکت کے زوال کا سبب ہوگا ۔
لہٰذا ہمارے لیے اور پورے معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے سوچیں ، غور و فکر کریں اور اللہ تعالی کے قرب کی حصولیابی اور سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کی نیت سے ہے کسی بے سہارا خاتون کا سہارا بن کر اس کے لیے دو وقت کی روٹی اور جسم ڈھکنے کے لیے کپڑے کا اہتمام و انصرام کریں۔ جب اس کے دل سے دعائیں نکلیں گی تو اللہ عزوجل قادر مطلق ہے وہ اس کی سانسوں کے بدلے نیکیاں لکھ دے سکتا ہے، کہ یہ بہت بڑی نیکی ہے،
ہمیں ایسی عورتوں سے نکاح کرنے کا صلہ آخرت میں اللہ رب العزت کی طرف سے بے شمار انعامات کی شکل میں تو ضرور ملے گا، اس دنیا میں بھی اس کے بےشمار فوائد حاصل ہوں گے،
مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کے چند ظاہری فوائد جو اس وقت ناچیز کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں ان شاء اللہ تیسری اور آخری قسط میں ضرور پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔