پہلی صدی ہجری میں ہی اسلام کی کرنیں کئی بر اعظموں میں پہنچ چکی تھیں۔ اسلامی فتوحات کے نتیجے میں مملکتِ اسلامیہ کی مسلسل توسیع ہو رہی تھی۔ خلافت کے بعد ملوکیت نے سر اُبھارا۔ پھر بعض سلاطین نے آمریت کو رواج دیا اور یہیں سے شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا۔ ملتِ اسلامیہ کے لیے دوسری صدی ہجری سے چھٹی صدی ہجری تک کا دور بڑا خوں آشام رہا۔ خانہ جنگیاں بھی زوروں پر رہیں۔ مسلمان اقتدار کے لیے مسلمان کا خون بہاتے رہے۔ بغداد و اصفہان ان سرگرمیوں کا مرکز تھے، بہ قول شمس بریلوی: ’’ملک گیری کے لیے جو خوں آشام جنگیں ہوئیں اور جن شورشوں نے سر اُٹھایا ان کا مرکز ہمیشہ اصفہان و بغداد رہے۔‘‘ (اہل سنت کی آواز مارہرہ، شمارہ غوث اعظم، ص۱۲۴) اسی دور میں تصوف نے اسلام کی عظمت و سربلندی کے لیے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو اسلامی تاریخ کا نقشِ زریں بن گئے۔
پس منظر:
عباسیوں نے مسلمانوں کے لہو پر اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ان کے زوال کے بعد صباحی اور باطنی عقائد نے سر اُبھارا، مصر میں قرامطہ اُٹھے، اسلامی سرحدوں پر صلیبیوں کی مسلسل یورش رہی، یہ تو جغرافیائی اور سیاسی حالات تھے۔ مسلم سلاطین نے علوم و فنون کی خدمت کے لیے حکمت و طب اور فلسفۂ یونان جو دَم توڑ چکا تھا اُنھیں عربی میں مدون کروایا، ان علوم کو ترقی دی، لیکن ان میں موشگافی اور فتوحات نے دھریت کو فروغ دیا، پانچویں صدی ہجری کا دور آتے آتے فلسفہ نے اپنی ترقی کے ساتھ ہی اسلامی فکر کو زوال کی دہلیز پر پہنچا دیا۔ فلاسفہ نے عقل کے مقابل اسلام کے روحانی نظام کو نشانۂ ہدف و تنقید بنایا۔ ایسے دور میں بغداد کے نواح میں جیلان کی سر زمین پر حضور غوث اعظم سیدنا محی الدین عبدالقادر جیلانی ماہِ رمضان ۴۷۰ھ میں پیدا ہوتے ہیں۔
تین رُخ:
فکری صلاحیت، خاندانی شرافت و نجابت، علمی وجاھت، اعلیٰ تربیت، اور خداداد ذہانت و فطانت کی بنیاد پر بہت کم مدت میں حضور غوث اعظم نے جملہ علوم و فنون اور سلوک و روحانیت کے منازل طے کر لیے۔ تربیت کی راہ سے گزر کر رہبری کے منصب پر فائز ہوگئے۔ فکری انحطاط، اعتقادی زوال، فتنوں کی یورش اور معاشرتی تباہی کے پُر آشوب دور میں مشیت نے غوث اعظم کو دین کی زندگی کے لیے چن لیا تھا۔ آپ کی حیاتِ طیبہ اور خدمات کی ورق گردانی کرنے پر تین جہات سامنے آتی ہیں:
(۱) درس و تدریس
(۲) وعظ و ارشاد
(۳) اسلامی روحانیت کا احیا
درس و تدریس:
عہدِ غوثیت میں علومِ عقلیہ عروج پر تھے، دین سے دوری نے ان علوم کے ماہرین کو شترِ بے مہار کر چھوڑا تھا۔ عقیدۂ توحید متزلزل ہو چلا تھا، ایسے میں اسلامی علوم کے ماہرین کی ٹیم درکار تھی؛ جسے غوث اعظم نے محسوس کیا۔ آپ نے اپنی دعوت کا آغاز درس و تدریس سے کیا۔ ہزاروں علما تیار کیے اس طرح دینی علوم کو نئی زندگی عطا کی۔ محفلِ درس کا حال یہ تھا کہ طلبا کی تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی، وسیع عمارت بھی تنگ دامنی کا شکوہ کر رہی تھی۔ ۵۲۸ھ میں ایک وسیع و عریض عمارت تیار کی گئی اور درس کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔
وعظ و ارشاد:
اللہ کریم کا ارشاد ہے: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ
ترجمہ:’’اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہترہو‘‘
(سورۃ النحل:۱۲۵/کنزالایمان)
حکمت و دانش کے ساتھ وعظ و ارشاد نے دین کی اشاعت میں اہم کردار نبھایا ہے۔ اولیا نے اس اصول کو اپنائے رکھا۔ غوث اعظم نے اشاعت حق و صداقت کے لیے وعظ و ارشاد سے بھی کام لیا اور اس عہد کا یہ تقاضا بھی تھا۔ آپ کی زبان سے علم و فن کے موتی جھڑتے۔ باتیں دلوں میں اتر جاتیں۔ نہاں خانۂ دل روشن ہو جاتا۔ آپ کا اسلوبِ خطابت دل پذیر تھا، سادہ و عام فہم، اچھوتا و علمی خوبیوں کا مرقع۔ موضوع کے لحاظ سے آیات و احادیث اور صحابہ و اولیا کے ارشادات بیان فرماتے۔ مواعظ و ارشادات کے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔
(۱) اعتقادی
(۲) اصلاحی چوں کہ عقیدے کی حالت نا گفتہ بہ تھی اس لیے آپ نے عقیدے کی تعمیر و درستی کو فائق رکھا۔ اس دور میں معاشرتی تنزلی، اخلاقی انحطاط اور بدکرداری و بے راہ روی کے معاملات بھی عروج پر تھے۔ معاشرتی اصلاح کے لیے بھی آپ کے وعظ میں خاصا مواد ہوتا… محفل میں امرا و اطبا بھی ہوتے، حکما و دانش ور بھی، ماہرِ فن بھی ہوتے اور نکتہ سنج بھی، کم پڑھے لکھے بھی ہوتے اور غربا و مظلوم بھی، سبھی دُرَرْ و گوہرِ علم سے اپنے دامن بھر کر رُخصت ہوتے۔ عصیاں شعار، ڈاکو و راہزن تائب ہوتے، اسلام کی راہ کے راہبر بن جاتے، عیسائی و یہودی بھی آتے اور ان میں اکثر ھدایت سے سرفراز ہو کر داخلِ اسلام ہو جاتے، محافلِ غوثیت کی شان میں امام احمد رضا نے خوب فرمایا:
عجم کیسا، عرب حل کیا، حرم میں
جمی ہر جا تری محفل ہے یا غوث
سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ ہفتے میں ۳؍ دن وعظ کی محفلیں سجتیں: جمعہ کی صبح، منگل کی شام اور اتوار کی صبح۔ غوث اعظم فرماتے ہیں: ’’میری مجلس میں دو یا تین آدمی سننے والے ہوتے مگر میں نے سلسلۂ کلام جاری رکھا، پھر لوگوں کا ہجوم اس قدر بڑھا کہ جگہ تنگ ہو گئی، پھر عید گاہ میں خطاب شروع کیا، وہ بھی نا کافی ہوئی تو شہر سے باہر کھلے میدان میں اجتماع ہونے لگا، اور ایک ایک مجلس میں ستر ہزار کے قریب سامعین جمع ہونے لگے۔‘‘(اخبار الاخیار، بہ حوالہ مرجع سابق) چار سو افراد قلم دوات لے کر آپ کے ملفوظات جمع فرماتے۔ قال سے حال پر گفتگو فرماتے تو مجمع کی حالت بدل جاتی۔ آپ کے ملفوظات میں ہے: ’’میرے ہاتھوں پر پانچ ہزار سے زیادہ یہود ونصاریٰ تائب ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے، رہزنوں اور فسق و فجور میں مبتلا افراد جنھوں نے میرے ہاتھوں پر توبہ کی ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔‘‘ (مرجع سابق) آپ نے جھوٹے صوفیا جو شریعت چھوڑ کر طریقت کی آڑ میں نفسِ بد کی پیروی کرتے ہیں ان کی بھی گرفت فرمائی اور انھیں اسلامی تصوف کے آداب سکھائے،
اسلامی روحانیت کا احیا:
نظامِ روحانیت کی تشکیل کے لیے اخلاقی تربیت، تزکیۂ باطن، اصلاحِ نفس، تطہیرِ قلب اور دعوت الی الحق پر زور دیا۔ اس دور میں سارا زور مادیت اور عقلیت پر تھا، آپ نے عقلِ خام کی گرفت کی، اس کے مقابل اسلام کے فطری نظام روحانیت کی عظمت کو اُجاگر فرمایا، جس کا مبدا ’’وحی الٰہی‘‘ ہے، ’’وحی‘‘ کے مقابل ’’عقل‘‘ کی کوئی حیثیت نہیں! آپ نے قرآن اور نبی کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیمات کی سمت دلوں کو پھیرا، اور دعوت دی: ’’اے لوگو! دعوتِ حق قبول کرو، بے شک میں داعی الی اللہ ہوں کہ تم کو اللہ کے دروازے اور اس کی اطاعت کی طرف بلاتا ہوں، اپنے نفس کی طرف نہیں بلاتا کہ منافق ہی اللہ کی طرف مخلوق کو نہیں بلاتا بلکہ اپنے نفس کی طرف بلاتا ہے۔‘‘ (مرجع سابق ص۱۴۰)
چندارشادات:
غوث اعظم نے اشاعتِ حق اور اصلاح کے لیے اپنے ارشادات سے ذہن و فکر کی تربیت فرمائی، آپ کے ملفوظات و ارشادات کو موضوعاتی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سیکڑوں موضوعات پرمشتمل ہیں، اور زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتے ہیں، یہاں ہم بہ طور نمونہ چند ملفوظات ذکر کرتے ہیں جنھیں طاقِ حیات میں سجا لیا جائے تو من کی دنیا میں رونق چھا جائے گی:
(۱) جو شخص آدابِ شریعت نہیں اپناتا، قیامت کے دن آگ اسے ادب سکھائے گی۔
(۲) جو شخص نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتا، ایک ہاتھ میں آپ کی شریعت اور دوسرے ہاتھ میں قرآن پاک نہیں تھامتا اس کی رسائی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک نہیں ہو سکتی۔
(۳) اے عالم! اگر تو دنیا و آخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو اپنے علم پر عمل کر اور لوگوں کو علم سکھا۔
(۴) صاحبِ ایمان کو چاہیے کہ پہلے فرائض ادا کرے جب ان سے فارغ ہو تو سنتیں ادا کرے پھر نوافل میں مشغول ہو۔
(۵) جو آخرت کا طلب گار ہو اسے دنیا سے بے نیاز ہو جانا چاہیے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کا طالب ہو اسے آخرت سے بھی بے نیاز ہو جانا چاہیے۔
(۶) تصوف میں سچا صوفی وہ ہے جو اپنے دل کو اپنے مولا کے ما سوا سے پاک کر لے۔
(۷) آج تم فقہا علما اور اولیا سے بغض رکھتے ہو جو ادب اور علم سکھاتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ تم دوا حاصل نہیں کر پاتے۔
(۸) ان لوگوں کی بات نہ سنو جو اپنے نفس کو خوش کرتے ہیں۔
(۹) جہالت تمام تر فساد کا باعث ہے۔
(۱۰) میں نے تمام اعمال کی چھان بین کی مگر ان میں کھانا کھلانے سے افضل اور حسنِ اخلاق سے زیاہ شرافت والا کوئی عمل نہ پایا۔ (شاید اسی لیے یہ فطری عمل بن گیا ہے کہ نیاز غوثیہ سارے عالمِ اسلام میں بڑے اہتمام سے کی جاتی ہے اور ہر طبقے کے مسلمان خواہ امیر ہوں یا غریب اسے کھاتے اور خوش ہوتے ہیں، کھانا کھلانا تو ہمارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور یہ عمل غوث اعظم کو پسندیدہ تھا) (بہ حوالہ الفتح الربانی، فتوح الغیب، اہل سنت کی آواز مارہرہ، غوث اعظم نمبر)
آپ نے عظمتِ توحید کے ساتھ ہی عظمتِ رسالت کا نقش بھی دلوں میں بٹھایا، اتباعِ سنت اور محبت نبوی کا درس دیا، ایک مقام پر مقامِ مصطفٰی کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ’’ہر شخص کی بیداری اس کے حال کے مطابق ہے، کوئی شخص نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیداری کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی کوئی آپ کی خصوصیات میں شریک ہو سکتا ہے۔‘‘ (مرجع سابق ص۸۹)… یہاں مجھے امام شرف الدین بوصیری کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
مُنَزَّہٌ عَنْ شَرِیْکٍ فِیْ مَحَاسِنِہٖ
فَجَوْھَرُ الْحُسْنِ فِیْہِ غَیْرُ مُنْقَسِمٖ
ترجمہ: آپ اپنی خوبیوں میں شریک سے پاک ہیں تو آپ کا جوہر حسن و جمال قابلِ تقسیم نہیں۔ (ترجمہ از نفیس احمد مصباحی)
چشمۂ بغداد سے سیرابی کرنے والوں نے بعد کے اَدوار میں بھی اصلاحِ ایمان و عمل کی تحریک جاری رکھی اور مشنِ غوثیت کو آگے بڑھایا، اور اسے ساری کائنات میں عام کیا، فکر کی تطہیر کے لیے آپ کے مواعظ و ارشادات کی ضرورت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی کے عہدِ غوثیت میں تھی اور احیاے دین کے لیے آپ کی تعلیمات کی اشاعت ہر علاقے کی ضرورت ہے، امام احمد رضا محدث بریلوی نے شانِ غوثیت میں خوب ہی کہا ہے:
گیت کلیوں کی چٹک غزلیں ہزاروں کی چہک
باغ کے سازوں میں بجتا ہے ترانا تیرا
تحریر: غلام مصطفٰی رضوی
نوری مشن مالیگاؤں