رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
{یومِ وصال: ٢٢ ربیع الآخر)
اسلاف و اکابر نے صراطِ مستقیم سے منحرف فکروں کی اصلاح کی۔ فتنہ ہاے عصر سے نبرد آزمائی کی۔ باطل قوتوں کا دنداں شکن جواب دیا۔ سرمایۂ ملت کی نگہ بانی کی۔ اسلام کی شاہراہِ مستقیم کی حفاظت کی۔ دین کی سرحدوں کی پاس داری کی۔ اندھیروں کو دور کیا۔ حق کی روشنی اکنافِ عالم میں پھیلا کر اُجالا برپا کر دیا۔ نور نور سماں ہو گیا۔ دل نور، فکر نور، باطن بھی نورٌ علیٰ نور۔
وہ جن کا خیال روشنیاں لاتا ہے۔ جن کی یادوں میں روشنی، جن کے تذکروں میں روشنی۔ اہلِ حق کا یہی شیوہ ہے کہ وہ نور کے سفیر ہوتے ہیں؛ ظلمتوں سے بچاتے ہیں۔ حق کے لیے آمادہ ہوتے ہیں اور باطل سے سینہ سپر۔ زمانے نے آزمایا ہے کہ اہلِ حق بلاخوفِ لومۃِ لائم سچ کہہ سناتے ہیں۔ چھپاتے نہیں۔ انھیں اللہ کی رضا منظور ہوتی ہے۔ انھیں ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم عزیز ہوتی ہے۔ عشق کے تمام میادین میں وہ فاتح رہے ہیں جو حق کی صیانت کو اُٹھے اور گستاخانِ بارگاہِ رسالت کا مقابلہ عزیمت و استقامت سے کیا۔ سُرخرو رہے، کامیاب رہے۔ عزمِ محکم سے بلائیں پسپا کرتے رہے۔ طوفانِ طاغوت کے دھارے موڑتے رہے۔ مجدد الف ثانی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، علامہ فضل حق چشتی خیرآبادی، علامہ فضل رسول بدایونی، حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی، علامہ عبدالقادر بدایونی، امام احمد رضا قادری بریلوی، پیر مہر علی شاہ چشتی گولڑوی، شیخ المشائخ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی، علامہ حامد رضا خان بریلوی، مفتی اعظم نوری بریلوی نے اپنے اپنے عہد میں باطل کی سرکوبی کی اور رہِ حق کی ترجمانی و رہبری کی۔ انھیں کی روایات کے امین ہیں سعادتِ لوح و قلم مسعودِ ملت پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد علیہ الرحمۃ۔ جن کی حیات کا لمحہ لمحہ اشاعت دین و فروغِ اہلِ سنّت میں گزرا۔ جو مجددالفِ ثانی و مجدد بریلی کے دستر خوانِ علم کے خوشہ چیں تھے۔ انھیں کے افکار کے نقیب تھے۔ اپنے قلمِ حق رقم سے تاریخ مرتب کر دی۔ دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ ان کا ذکر جمیل اہلِ سنّت کے لیے باعث فخر و انبساط ہے۔ سیرت طیبہ ہو یا عظمت اولیا، مجدد الف ثانی کے تاباں افکار ہوں کہ اعلیٰ حضرت محدث بریلوی کے نور نور نظریات؛ ان کی توضیح و ترسیل تحریر کے ذریعے جس عمدہ انداز میں کی وہ مثالی ہے، انداز بھی خوب اور اسلوب بھی باکمال۔ ان سطور میں ہم مسعودِ ملت پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی کے جذبۂ احقاقِ حق اور فتنہ ہائے باطلہ کی تردید میں قلم کی جسارت و فکر کے بانکپن پر چند گوشے سپردِ قرطاس کریں گے۔
تعلیماتِ مجددیہ کی نمائندگی:
سید اکرام حسین سیکری [سجادہ نشین خانقاہ عالیہ سیکر شریف میرپور] کے نام پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد [مکتوب محررہ۲۳؍دسمبر۲۰۰۳ء میں] لکھتے ہیں:
’’یہ آپ نے صحیح فرمایا کہ سلسلۂ نقشبندیہ میں وہابیہ دیوبندیہ داخل ہوگئے ہیں۔ فقیر نے "جہان امام ربانی” میں اس کا ازالہ کیا ہے، بلکہ شروع ہی میں امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کا ذکر کر دیا ہے اور اپنے ابتدایے میں یہ واضح کیا ہے کہ وہابیہ دیوبندیہ نے حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کا استحصال کیا ہے اور دوسری طرف امام احمد رضا نے تعلیماتِ مجددیہ کو فروغ دیا۔‘‘۱؎
ایک مقام پر وہابیت کے دو چہروں سے متعلق فرماتے ہیں کہ: ’’وہابیہ کھلے گستاخ اور دیوبندیہ منافق ہیں۔‘‘۲؎
آج کل یہی ہو رہا ہے کہ عام مسلمانوں میں دیوبندیت کی اشاعت کے لیے سلاسلِ بیعت کی آڑ لی جا رہی ہے۔ دیوبندیت چھپا کر دیوبندی بنایا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی ضرورۃً مراسمِ اہلِ سنّت پر بھی عمل کر لیا جاتا ہے۔ جب کوئی بندہ ان کے جال میں پھنس جاتا ہے تو ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا گستاخ و بے ادب بنا دیا جاتا ہے۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا تھا ؎
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے
ان کی دھوکا دہی سے متعلق مسعودِ ملت کھلی بات کہتے ہیں جو راقم کا بھی مشاہدہ ہے، لکھتے ہیں: ’’وہابیہ دیوبندیہ جھوٹ بولنے میں بڑے بے باک ہیں۔‘‘۳؎ بارہا ایسا ہوا کہ کسی بدعقیدہ کو گستاخیِ رسالت میں علماے دیوبند کی تحریر دکھائی گئی تو جھٹ کہہ دیا: یہ ہماری کتاب نہیں، یہ تمہیں نے چھاپی، لیکن جب ان کے مولوی کی نام بنام حقیقت کھولی گئی تو جھوٹی تاویلیں گڑھیں۔ مکر و حیلے سے کام لیا۔ اسی عادتِ ثانیہ کا ذکر مذکورہ اقتباس میں مسعودِ ملت نے فرمایا ہے۔
اکابر سُنّی تھے:
وہابی فرقے کے اکابر سُنّی تھی۔ جیسے حاجی امداداللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ جنھوں نے نئے عقائد کی تردید میں ’’فیصلۂ ہفت مسئلہ‘‘ تحریر کی۔ اسی طرح اکثر علماے دہلی نے اسماعیل دہلوی کی ’’تقویۃالایمان‘‘ کی تردید میں کتابیں لکھیں، فتوے صادر کیے…. لیکن افسوس کہ منکرینِ فضائل رسالت کے دل میں وہابیت ایسی بسی کہ حق سجھائی نہ دیا۔ اسی طرح دیوبندی جو ’’نقشبندی، صابری، چشتی‘‘ بلکہ اب "قادری” ہونے کے مدعی ہیں کے اکابر؛ جن سے اپنی نسبتیں بتاتے ہیں وہ سب کے سب سُنّی تھے۔ مسعودِ ملت لکھتے ہیں: ’’وہابیت ودیوبندیت کے اثرات سے پہلے پاکستان کے لوگ بنیادی طور پر سُنّی تھے۔ بلکہ دیوبندیہ وہابیہ کے اکابر و اجداد بھی سُنّی تھے۔‘‘٤؎
موجودہ دور میں کتبِ اسلاف کی اشاعت کی جانی چاہیے تا کہ جہاں ایمان کی امید ہو وہاں حقائق کے مطالعہ سے قبولِ حق کی فکر پروان چڑھے۔
حسام الحرمین کی تائید:
علماے اہلِ سنّت نے قادیانی، وہابی و دیوبندی افکارِ باطلہ کی تردید میں اسلامی احکام جاری کیے۔ کفریہ عبارتوں پر پوری تحقیق کے بعد حکمِ شرعی عائد کیا۔ اس سلسلے میں ۳۳؍ علماے حرمین نے ’’حسام الحرمین‘‘ میں گستاخ فرقوں پر حکمِ کفر عائد کیا؛اس ضمن میں مسعودِ ملت اپنے والد ماجد مفتی شاہ مظہر اللہ نقشبندی کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت [مفتی محمد مظہراللہ نقشبندی دہلوی؛ م۱۹۶۶ء] کے نقشِ قدم ہمارے سامنے ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے جن حضرات کی تکفیر فرمائی۔ حضرت قبلہ نے ’’الصوارم الہندیہ‘‘میں اس کی تائید فرمائی۔اور مسلک کی علامت اور نشانی بن گئے۔ فقیر نے بھی یہی روش اختیار کی اور اغیار سے نہ کبھی مفاہمت کی اور نہ کسی کو یہ مشورہ دیا۔‘‘۵؎
مسعودِ ملت نے اور ان کے والد گرامی نے ’’حسام الحرمین‘‘ کی تائید کی اور فروغِ سنیت کا فریضہ انجام دیا۔ اہلِ سنّت و مسلکِ اعلیٰ حضرت پر استقامت کا پیغام دیا-
مسلکِ اہلِ سنّت کی متبادل تعبیر مسلکِ اعلیٰ حضرت:
اسلاف و اکابر کی خدمات علامت بن جاتی ہیں حق کی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سرمایۂ اہلِ سنّت ہیں۔ ان کی ذات خطِ امتیاز ہے۔ مسعودِ ملت پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی مسلکِ اعلیٰ حضرت کی توضیح میں فرماتے ہیں:
’’اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ مسلکِ جمہور کے داعی تھے۔ جدید جماعتوں میں کوئی کلی طور پر اس مسلک کی علم بردار نہیں۔ اس لیے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ اپنے خاص امتیاز کی وجہ سے اس مسلک کی علامت بن گئے اور یوں مسلکِ اعلیٰ حضرت کہا جانے لگا۔‘‘٦؎
اہلِ سنّت کی اس مترادف اصطلاح کی وجہ سے اہلِ حق گستاخ جماعتوں سے امتیاز کرتے ہیں۔ اور آج تبلیغی جماعت و دیگر وہابی حلقے اسی نشانِ امتیاز سے مساجد و مدارس و خانقاہوں پر قبضے سے عاجز ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے تحفظ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو جدوجہد کی اور مخلصانہ قلمی خدمات انجام دیں اس کا یہ صلہ ہے کہ آپ حق کی پہچان و معیار بن گئے، حضور سیدالعلماء مارہروی علیہ الرحمۃ نے عمدہ ترجمانی کی ہے مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ؎
حفظِ ناموسِ رسالت کا جو ذمہ دار ہے
یا الٰہی مسلکِ احمد رضا خاں زندہ باد
مخالفین نے اعلیٰ حضرت اور اہلِ سنّت سے حسد میں سازشیں کیں۔ قرائین و تحقیق، مشاہدہ و مطالعہ کی بنیاد پر مسعودِ ملت لکھتے ہیں: ’’مولیٰ تعالیٰ علماے اہلِ سنّت کو اغیارکی چالوں سے محفوظ رکھے۔ مسلک پر استقامت عطا کرے۔‘‘۷؎ اہلِ سنّت کے یہاں علمی کاموں کی طرف مسلسل پیش قدمی سے خیمۂ باطل میں بے چینی پھیل گئی۔ انھیں خدشہ ہوا کہ اسلاف کا علمی ورثہ ان کی پروپیگنڈہ مہم پر پانی پھیر دے گا۔ مسعودِ ملت اسی ضمن میں رقم طراز ہیں: ’’ماہرالقادری اہلِ سنّت کی بیداری سے بہت پریشان ہیں۔ان کی حالت قابلِ رحم ہے۔ ان کو کیا کہا جائے، بس دُعا کی جائے- مولیٰ تعالیٰ ان کو اعلیٰ حضرت کے حسد وعناد سے نجات عطا فرمائے۔‘‘۸؎ جب دیکھا گیا کہ سچ کے سامنے آنے سے سیم و زر اور جھوٹ کا زور ٹوٹ رہا ہے تو بہتان، الزام کو مشن بنا لیا گیا۔ جو تھا نہیں وہ بتایا گیا، غلط بیانی سے کام لیا گیا، اتہام کو راہ دی گئی، دن کو رات اور اُجالے کو اندھیرا بنا کر پیش کیا گیا۔ یوں خوفِ خدا جاتا رہا؛ نفس غالب آیا۔ مسعودِ ملت نے مشاہدہ تحریر فرمایا: ’’دشمنانِ اہلِ سنّت نے حقائق سامنے آنے کے باجود الزام تراشی کی مہم ترک نہیں کی بلکہ اس میں اور شدت آگئی۔‘‘۹؎
مجددیات پر کام کی ضرورت:
سلسلۂ نقشبندیہ پر دیوبندی فرقے نے اجارہ کی کوشش کی۔ سلسلوں کو بدعت باور کرانے والے سلسلوں کی آڑ میں دیوبندیت پھیلانے لگے، اور بدعتی تبلیغی جماعت کے لیبل میں علماے دیوبند کی تعلیمات کی اشاعت کی گئی۔ ایسے میں ضرورت محسوس کی گئی کہ تعلیماتِ مجدد الف ثانی و تعلیمات اعلیٰ حضرت مجدد اعظم میں مماثلت؛ اشاعت دین کے لیے ان کی افادیت اجاگر کی جائے۔ پروفیسر غلام مصطفٰی مجددی کے نام مکتوب میں کام کی جہتیں متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
دوعنوان ذہن میں آرہے ہیں کوئی نقشبندی فاضل تحقیق کرنا چاہیں تو یہ عنوانات بتا دیں:
[۱] امام ربانی اور امام احمد رضا کے عقائد و نظریات کا تقابلی، تنقیدی وتحقیقی جائزہ
[۲] امام احمد رضا پر امام ربانی کے اثرات۔۱۰؎
یوں ہی جب دیکھا کہ وہابی نظریات نے دیوبندی عقیدے کی بنیادوں کو پختہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ قوم جو اہلِ سنّت کی داعی تھی، انھیں وہابی تعلیمات کا اسیر بنانے کے جتن کیے گئے اور حیلے و مکر سے کام لیا گیا تو مسعود ملت نے احساس کیا کہ امام احمد رضا کے قندھار افغانستان سے مراسم کو نمایاں کیا جائے۔ اور ان کے معاصر علماے سرحد و افغان سے نسبتوں کی تحقیق شائع کی جائے۔ لکھتے ہیں:
’’امام احمد رضا کے افغانستان سے تعلق کو زیادہ اجاگر کیا جائے۔ اور علماے سرحد کی ان سے عقیدت کا بھی ذکر کیا جائے…‘‘۱۱؎
ضرورت ہے کہ علم و تحقیق کے مختلف زاویوں سے امام احمد رضا قادری محدث بریلوی کی خدمات قلم بند کر کے ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کی ضرورت اور گستاخ فرقوں کی بخیہ گیری کا فریضہ انجام دیا جائے۔ "حسام الحرمین” جس میں ایمان کے دشمنوں کو شرعی دلائل سے بے نقاب کیا گیا ہے کی اہمیت کو عامۃالمسلمین کے درمیان ظاہر کیا جائے تا کہ خزاں کی بادِ سموم دور ہو، اور ایمان کی بہار ایسی آئے کہ زباں پر نغمے گردش کرنے لگیں ؎
اے رضاؔ جانِ عنادل ترے نغموں کے نثار
بلبلِ باغِ مدینہ ترا کہنا کیا ہے
حوالہ جات:
[۱] مکتوبات مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء، ص۶۷۔۶۸
[۲] مکتوبات مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء، ص۷۴
[۳] مکتوبات مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء،ص۱۳۰
[٤] مکتوبات مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء، ص۴۱۶
نوٹ: اکابرِ نقشبندیہ کی سنیت پر استقامت اور رد وہابیہ میں خدمات پر راقم کے متعدد مقالے ہند و پاک سے مطبوع ہیں-
[۵] مکتوبات مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء، ص۴۷۲۔۴۷۳
[٦] مکتوبات مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء،ص۲۹۹۔۳۰۰
[۷] مکتوبات مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء،ص۳۵۱
[۸] مکتوبات مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء،ص۴۳۲
[۹] مکتوبات مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء، ص۴۷۰
[۱۰] مکتوبات مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء، ص۲۲۶۔۲۲۷
[۱۱] مکتوبات مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء، ص۳۵۹
تحریر: غلام مصطفٰی رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
Noori Mission Malegaon
gmrazvi92@gmail.com
9325028586