وحدت و جمعيت، اخوت ومحبت ،تحمل و برداشت، ، مروّت و رواداری اور درگزر جیسی خوب صورت روایات کی حامل اُمت مسلمہ اِس وقت جن مسائل اور چیلنجز سے دو چار ہے ان میں فتنئہ تکفیر پیش پیش ہے۔ ارباب علم و دانش پر یہ بات عیاں ہے کہ مسلمانوں کی اِس تکفیری روش نے امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور ہمارے ملی شیرازے کو منتشر کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے اس با ہمیں افتراق و انتشار نے امت کو علمی,فکری,سیاسی,سماجی اور ہر سطح پر نقصان پہنچایا ہے۔
یوں تو فتنئہ تکفیر کی تاریخ کافی پرانی ہے مگر اس صدی میں جس قدر تکفیریت کا بازار گرم رہا شاید ہی اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اس کی کوئ نظیر ملے۔ عصر حاضر میں مسئلہ تکفیر کو اس قدر سہل بنا دیا گیا کہ ہر کس و ناکس بھی اس موضوع پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے قطع نظر اس بات سے کہ اسے تکفیر کے اصول و ضوابط سے واقفیت و آشنائ ہے بھی یا نہیں۔
تکفیر مطلق و تکفیر معین, تکفیر فقہی و تکفیر کلامی, کفر لزومی و کفر التزامی, احتمال في التكلم, احتمال في الکلام اور احتمال في المتکلم جیسی علم العقائد کی بنیادی اِصطلاحات سے نا بلد افراد بھی کفر و ایمان پر بے لگام فتوابازی کرتے نظر آتے ہیں جس سے عوام المسلمین محض تکفیری کھلونا بن کر رہ گئے ہیں کہ جس کو جب چاہا بجا دیا۔ ہے احتیاطی و جرأت اِس قدر بڑھ چُکی ہے کہ دار الافتاء میں بیٹھا ہر شخص بیک وقت مفتی, محدث، مفسر, فقیہ و متکلم سب معلوم ہوتا ہے گویا کسی مسئلے پر قلم نہ اٹھانا یا یہ کہ دینا کہ یہ میرا فیلڈ نہیں ہے،اُس کی شان کے خلاف ہے۔
شخصیت پرستی و عدم برداشت کا عالم یہ ہے کہ فروعی اختلافات کے نام پر بھی فریقین دست و گریںباں نظر آتے ہیں۔ کسی غیر منصوص مسئلہ پر تحقیق کے نام سے اختلاف شروع ہوتا ہے اور شریعت مطہرہ کے بالمقابل ” نئی شریعت کی داغ بیل ڈالنے” کے الزام پر ختم ہوتا ہے اور جواب آں غزل کے طور پر فریق مخالف الزام لگانے والے کو تجدید ایمان,تجدید بیعت, اور تجدید نکاح جیسی سخت شرعی تعزیرات کا مستحق قرار دے دیتا ہے۔
شخصیت پرستی کا یہ حال ہے کہ مسئلہ تکفیر کو بھی تقلیدی موضوع سمجھا جانے لگا, پیر یا شیخ جس کی تکفیر کردے تو مرید یا متعلم کی کیا مجال کہ تکفیر کردہ کے متعلق تحقیق کا خیال بھی ذہن میں لائے گویا اس کے شیخ کا فتوی اس کے لیے نص قطعی کا درجہ رکھتا ہے کہ جو بھی اس کی تحقیق میں شک کرے یا اُس سے ذرہ برابر بھی اختلاف کرے وہ کافر ہو جائے گا ۔
اس سلسلے میں فقہاء کرام کے ایک قول "من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر ” کا سب سے زیادہ غلط استعمال کیا جاتا ہے جس پر تحقیقی گُفتگو راقم الحروف اپنے مضمون "من شك في كفره و عذابه فقد كفر کا صحیح مفہوم” میں کر چُکا ہے۔ من يرغب بالتفصيل فاليرجع إليه.
تکفیر مُسلم ایسا گناہ ہے جس کو قرآن و سنت میں تاکید کے ساتھ بیان بیان گیا ہے۔ چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
و لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًاۚ-(سورہ نساء 94)
ترجمہ: اور جو (مسلمان) تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں.
اسی طرح پیغمبر اسلام نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَیُّمَا امْرِیءٍ قَالَ لِاَخِیْہِ یَا کَافِرُ. فَقَدْ بَاءَ بِہَا أَحَدُہُمَا. إِنْ کَانَ کَمَا قَالَ وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَیْہِ”
اگر کوئی کسی اپنے (مسلمان) بھائی کو کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو ان میں سے کوئی ایک اس کا مستحق بن جاتا ہے، اگر وہ ایسا ہی تھا جو اس نے کہا تو ٹھیک، ورنہ کُفر اسی(قائل) کی طرف پلٹے گا۔
،(بخاری شریف 5752، مسلم 111)
امام غزالی فرماتے ہیں:
والذی ینبغی ان یمیل المحصل الیہ الاحتراز من التکفیر ما وجد الیہ سبیلا فان استباحۃ الدماء والاموال من المصلین الی القبلۃ المصرحین بقول لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، خطا ء والخطأ فی ترک الف کافر فی الحیاۃ أھون من الخطا ء فی سفک محجمۃ من دم مسلم
حق وباطل میں تمیز کرنے والے کے لیے مناسب ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو تکفیر سے احتراز کرے ۔اس لیے کہ قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنے والوں اور کلمہ شہادت کا اقرار کرنے والوں کے جان ومال کو مباح قرار دینا خطا ہے اور ایک ہزار کفار کوزندہ چھوڑنے میں غلطی کرنا اس کی بہ نسبت آسان ہے کہ کسی فرد مسلم کے خون بہانے میں غلطی کی جائے‘‘۔
الاقتصاد فی الاعتقاد ص 211
لہٰذا عام علما اور حفاظ و قراء حضرات کو مسئلہ تکفیر میں حد درجہ احتیاط ضروری ہے۔ اس مسئلے میں وہی شخص طبع آزمائی کرے جو علوم دینیہ کا ماہر اور علم کلام پر گہری بصیرت رکھتا ہو۔
رہے باقی حضرات تو اُنہیں اس میں الجھے بغیر صاف کہہ دینا چاہئے کہ یہ ہمارا فیلڈ نہیں،کسی ماہر متکلم سے رجوع کیا جائے۔
تحریر: طارق ثقافی رسول پوری