مراسلہ

صداے منبر و محراب

ائمہ مساجد کے نام

ملت کو بھیڑوں کے ایسے ریوڑ کی طرح نہ چھوڑ دیا جائے جس کا کوئی نگہبان نہ ہو :مفتی منظور ضیائی

ممبئی: اس عنوان سے خدانخواستہ ہرگز یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ علماے اکرام ،ائمہ مساجد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس اور ادراک نہیں ہے ۔ائمہ اکرام اس پر آشوب دور میں اتنہائی صبر و قناعت کے ساتھ روکھی سوکھی پر زندگی گذارا کرکے قوم وملت کی جو گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں اُس کا اعتراف نہ کرنا ناستاسی اور قدر نا شناسی ہوگی ۔ہم ائمہ کرام کی خدمات اُن کی قدر وقیمت کا اعتراف کرتے ہوئے اُن کی برادری کا ایک فرد ہونے کے ناطے چند باتیں گوش گذار کرنا چاہتے ہیں ۔

الحمد اللہ آج مسجدیں نمازیوں سے بھری ہیں اگر علامہ اقبال آج کے دور میں ہوتے تو شاید یہ شکوہ نہ کرتے کہ 

مسجدیں مرثیہ خواںہیں کہ نمازی نہ رہے 

الحمد اللہ آج تمام مسجدیں بھری نظر آتی ہیں ان میں ہر عمر کے لوگ ہوتے ہیں ۔نو جوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی مسجدوں میں نظر آتی ہے ۔رہا جمعہ کا دن تو شہر اور مضافات کی تمام مسجدیں جگہ کی تنگی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہیں ۔حالیہ لاک ڈاؤن کے درمیان جہاں لوگوں کو مختلف قسم کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تھا وہیں اس بات کا صدمہ بھی تھا کہ مسجدیں بند کر دی گئیں ہیں لیکن جیسے ہی مسجدیں کھلیں لوگ جوق در جوق مسجدوں کی طرف جانے لگے ۔اس سے ہمارے معاشرے میں مسجدوں کی اہمیت اور اسلامی شرعی قوم کی عقیدت اور محبت کا اظہار ہوتا ہے ۔مساجد کےائمہ کرام نہایت اہم ذمہ داری کو پورا کرتے ہیں اُن کا مسلم معاشرے سے براہ راست تعلق ہوتا ہے ۔دن میں پانچ وقت نمازیوں سے اُن کا واسطہ ہوتا ہے ائمہ کرام کی بڑی تعداد ایسی ہے جو نماز پڑھانے کے علاوہ بچوں کو قرآن پڑھانے کی ذمہ داری بھی نبھاتے ہیں۔ شرعی احکامات سیکھنے کے لئے بھی لوگ ائمہ کرام سے رجوع کرتے ہیں اور شرعی مسائل کا علم بھی انہیں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے ۔غرض کہ ائمہ کرام کو مسلم معاشرے میں جو مرتبہ حاصل ہے اس کے پیش نظر اُن کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں ۔لوگوں کے دلوں میں اُن کا احترام ہوتا ہے اسلئے لوگ اُن کی باتیں مانتے بھی ہیں ۔آج کے دور میں جب کہ ہر طرف افرا تفری کا ماحول ہے ہماری قوم بالخصوص نوجوان غلط راستے پر جا رہے ہیں ۔معاشرہ میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو مسلم عوام بالخصوص ہمارے نوجوانوں کو غلط راستے پر لے جانے کی کوشش کرتی ہیں ان حالات میں ائمہ کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اس بات کی تلقین کریں کہ وہ ہر حال میں پرامن اور پرُ سکون رہیں کسی کے بہکاوے اور ورغلانے میں نہ آئیں، کسی کے سیاسی عزائم کی تکمیل کا ایندھن نہ بنیں ،بہت سے لوگ مختلف ہیلے بہانوں سے مسلمانوں کو تکرار کے راستہ پر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔کچھ نوجوان انتہا پسندی ،شدت پسندی کی طرف راغب ہو کر اپنا کریئر بھی خراب کر لیتے ہیں اور اپنے والدین اور پورے مسلم سماج کی بدنامی کا سبب بھی بن جاتے ہیں ۔ ان حالات میں ائمہ کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی تقریروں کے ذریعے بالخصوص جمعہ کے روز جب کثیر تعداد میں مسلمان ایک مسجد میں جمع ہوتے ہیں تو اس موقع پر مسلمانوں کو سمجھایا جانا چاہئے کہ وہ اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بنائیں۔گمراہیوں اور بری عادتوں سے بچیں، رزق حلال کھائیں اور اپنے بچے اور بچیوں کو شریعت کے متعلق زندگی گذرانے کی تلقین کریں ۔

یہ سب باتیں کہنے کی ضرورت اسلئے پیش آر ہی ہے کہ کچھ افراد اور کچھ تنظمیں مختلف رنگ و روپ میں سامنے آکر مسلمانوں کو ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔مسلمانوں اور برادارن وطن کے درمیان دوری پیدا کرنے اور نفرت کی دیوار حائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ائمہ کرام اپنی واضح نصیحت کے ذریعے عام مسلمانوں کے اندر اپنے بھلے بُرے کی پہچان کا شعور پیدا کر سکتے ہیں ۔نوجوانوں کواس بات پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی صحت ،طاقت،تندرستی اور توانائی کا استعمال اپنا کریئر بنانے ،اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور ملک وملت کا نام روشن کرنے کیلئے استعمال کریں ۔نہ کہ ایسی کوئی حرکت کریں جس سے اُن کو اُن کے والدین اور پوری مسلم کمیونٹی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے ۔

ائمہ کرام کا مرتبہ بہت بلند ہے ہماری اُن سے دست بستہ گذارش ہے کہ وہ اپنے مقام ومرتبہ سے کسی بھی طرح سمجھوتہ نہ کریں اور کوئی بھی طاقت اُن کو اپنے گھٹیا مقاصد کے لئے استعمال نہ کر سکے ۔مسلمانوں اور دیگر برادران وطن کے درمیان میل جول ،محبت اور یگانیت آج کے دور کی نہایت اہم ضرورت ہے ۔ائمہ کرام اپنے خطبہ کے ذریعے مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم دیں کہ وہ اپنے برادران وطن کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں ۔اُن کے دکھ درد میں شریک ہوں اور اُن کے سامنے اخلاقی کردار کا نمونہ پیش کریں جو اسلام نے اپنے ماننے والوں کو سکھایا ہے ۔اس سے مسلمانوں اور دیگر برادران وطن کے درمیان نفرت اور دشمنی کی جگہ خلوص اور محبت کے جذبات پروان چڑھیں گے ۔

آخر میں ہم عامتہ الامسلمین سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ مساجد کے ائمہ کرام اور مقامی علمائے کرام کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھیں اور اُن کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کریں ۔کسی مشکل اور بہران کی صورت میں علمائے کرام سے رجوع کریں اور کسی بھی حال میں ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں جو عام مسلمانوں کی بدنامی رسوائی یا آپسی نفاق کا سبق بنے ۔

شاید کی تیرے دل میں اُتر جائے میری بات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے