متنازع حالات کے وقت جامع مسجد سنبھل کے اسی علاقے میں میری موجودگی نے تن بدن کے ساتھ ذہن و فکر کو جھنجھوڑ دیا تھا ان خیالات کے بعض اجزاء کو ہی نظم کیا جا سکا—–
سب لٹ گیا ہے جس کا یہاں کچھ بچا نہیں
اب کیا کرے وہ جس کا کوئی راستہ نہیں
اے خاکِ ہند ! تجھ میں تو آزاد ہیں سبھی
لیکن بتا کہ ہم بھی ہیں آزاد یا نہیں ؟
آزادیِ وطن کے لیے تیری گود میں
تو ہی بتا کہ خونِ مسلماں بہا نہیں ؟
سستا ہے تیرا خون اے شہزادۂ وطن !!
ہے قیمتی مگر وہ مسلمان کا نہیں !
مشہَد میں بولتے ہوئے دیکھا ہے میں نے آج
کس نے تجھے کہا ؟ کہ لہو بولتا نہیں !
جب چاہے جو بھی چاہے کرے دعویِ فضول
قانون کا کسی کو لحاظ و ادا نہیں !
منصف مزاج لوگ ہیں بازار میں بہت
حق کے لیے کسی کا مگر مُنہ کُھلا نہیں !
ویران کیوں ہے صبح کا منظر عجیب ہے
غمگین شام گاہ کبھی یوں ہوا نہیں !
اہلِ ستم کو بول یہ ہے آہِ نیم شب
مت سوچ ظلم روکنے والا خدا نہیں !
اجڑا دیار ، لاشیں ملی ، اور مقدمات
تاریخِ ظلم و جبر میں کیا کیا مِلا نہیں !
آصفؔ ہجومِ شہر تو دیکھی نگاہ نے
سنّاٹا اس سے پہلے کبھی یوں دِکھا نہیں !
ابن التہذیب
محمد آصفؔ نوری
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی