ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی بھر مولانا آزاد کا وہاں نام لیتے رہے جہاں ان کا نام لینا جرم تھا: مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی
مشہور و معروف محقق و ناقد اور ماہر ابولکلامیات مولانا ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کے سانحہء ارتحال پر اظہار رنج و ملال کرتے ہوئے مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی جنرل سکریٹری مولانا آزاد اکیڈمی نئی دہلی نے کہا کہ ڈاکٹر ابو سلمان جہاں پوری ،مولانا غلام رسول مہر ،عبد اللہ بٹ ،ڈاکٹر شیر بہادورخاں پنی اور آغا شورش کاشمیری ایڈیٹر چٹان کے بعد نظریہ ء مولانا آزاد اورفکر آزاد کے سب سے بڑے ترجمان و مبلغ تھے، جنہوں نے اپنی آدھی زندگی سے زیادہ مولانا آزاد کے افکار و نظریات کی اشاعت و ترویج میںصرف کی تھی ،جب ۱۹۸۸ میں ہندوستان میں مولانا ابو الکلام آزاد کی ولادت کے صد سالہ جشن سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا تو یہاں ماہر غالبیات ملک رام صاحب صدر ساہیتہ اکادمی نے ساہیتہ اکادمی نئی دہلی سے مولانا آزاد کی اکثر مشہورکتابوں بشمول ترجمان القران کو تحقیق و تعلیق کے ساتھ اعلٰی معیارسے شائع کیا تھا جب کہ پڑوسی ملک سے اس کی کوئی خاص امید نہ تھی، اس کے باوجود ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے تن تنہا آزاد نیشنل کمیٹی پاکستان سے ۲۴ کتابیں شائع کی تھیں ،جن میں خود ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی دو کتابیں ’’اردو کی ترقی میں مولاناابوالکلام آزاد کا حصہ ‘‘اور’’ مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت ‘‘بڑی اہمیت کی حامل ہیں ،ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی بھر مولانا آزاد کا وہاں نام لیتے رہے جہاں ان کا نام لینا جرم تھا ۔
مولانا عطاء الرحمن قاسمی نے اپنے اخباری بیان میں کہا کہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری جب آخری دفعہ ہندوستان آئے تو اپنی علالت کی وجہ سے موج پور کے ایک چھوٹے سے ہسپتال میں زیر علاج ہو گئے تھے ،غالبا وہاں ان کا ہلکا سا اپریشن ہوا تھا ،میں ان کی عیادت کے لیے ہسپتال گیا تھا ،انہوں نے اپنے سفر کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے الحمد اللہ خطبات جمعیۃ علماء ہند کو مرتب کر دیا ہے اور اب اسکی طباعت کامرحلہ ہے مگر اسکی صورت یہاں نظر نہیں آرہی ہے ،میں نے ان سے کہا تھا الحمداللہ آپ کی بیشمار کتابیں چھپ چکی ہیں ،یہ اہم کام بھی دیر سویر بھی منظر عام پر آجائیگا ،آپ تو بڑے خوش قسمت ہیں ، تاریخ میں یہ المناک حادثہ بھی ملتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر کے استاد ، حضرت ذوق دہلویؒ کا دیوان ان کی حیات میں شائع نہ ہوسکا تھا ، یہ سن کر مرحوم ایک دم مسکرانے لگے تھے ۔
بلا شبہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے انتقال پر ملال سے دنیائے علم و ادب اور تحقیق و تنقید کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے ،اللہ تعالی ان کی علمی و دینی خدمات کو قبول کرے اور انہیں جنت فردوس میں داخل فرمائے ۔آمین