تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی
پچھلے دنوں فیس بک پر ایک قوال کی وائرل ویڈیو نگاہ سے گزری جس میں ایک معروف خانقاہی شیخ اور مشہور خطیب جھومتے اور داد دیتے نظر آرہے ہیں، شعر کچھ یوں تھا:
مٹ گیا نام ونشاں نسل امیر شام کا
بچہ بچہ آج بھی زندہ ابوطالب کا ہے
بعض لوگوں نے پیر صاحب کو دیکھتے ہوئے شبہ ظاہر کیا ممکن ہے ویڈیو ایڈٹ ہو۔کچھ دیر بعد کسی نے قدرے تفصیلی ویڈیو پیش کیا جس سے ایڈٹنگ کا شبہ ختم سا ہوجاتا ہے۔اس ویڈیو میں مزید دو شعر اور بھی شامل ہیں:
کیا بتائیں آپ کو، کیا کیا ابوطالب کا ہے
ہر طرف بٹتا ہوا صدقہ ابوطالب کا ہے
خواجہ اجمیر نے جس کو کہا دین ست حسین
وہ حسین ابن علی پوتا ابوطالب کا ہے
ان اشعار میں بہ کمال عیاری رافضی نظریات پھیلانے کی کوشش کی گئی مگر پیر صاحب اور دیگر شہ نشیں حضرات قوال کو ٹوکنے کی بجائے جھومتے اور داد دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اس طرز عمل کی دو ہی وجہ ہوسکتی ہیں:
1-پیر صاحب اشعار سمجھ نہ پائے ہوں۔(حالانکہ داد دینے کا انداز اس کے خلاف ہے)
2-پیر صاحب خود اسی نظریے کے حامل ہوں۔
وجہ دوم کو ان کے داد دینے کے انداز سے بھی تقویت ملتی ہے اور ان کے والد بزرگوار کے حالیہ تبدیلی موقف سے بھی!
ممکن ہے والد گرامی کے ساتھ موصوف نے بھی موقف تبدیل کرلیا ہو۔
وجہ اول کی صورت میں ہمیں یقین ہے کہ موصوف مطلع ہونے کے بعد آئندہ اپنی محفلوں کو رافضی اثرات سے محفوظ رکھیں گے اور عوام اہل سنت کا خلجان دور کرنے کے لیے وضاحت نامہ بھی جاری کریں گے۔وجہ دوم کی صورت میں ہم چند گزارشات پیش کرتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ رافضی نظریات کا فساد وبطلان ظاہر ہو اور اہل سنت وجماعت کا نظریہ حق وصداقت سامنے آسکے۔
وجہ فضیلت،نسبتِ رسالت یا نسبتِ ابوطالب؟
یہ بات بدیہی ہے کہ خونی رشتے کی بنا پر جناب ابوطالب حسنین کریمین کے دادا ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ تاریخ کے کسی دور میں حضور سید عالمﷺ ، حضرت علی المرتضٰی اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم نے فضل وکمال اور تعارف میں دادا کا نام لیا یا نانا وبابا کا نام استعمال فرمایا۔اس سے قبل چند بنیادی باتیں ذہن نشین رکھیں:
(الف) نفس ایمان میں ہر صاحب ایمان برابر ہے۔معیار فضیلت تقوی وپرہیزگاری ہے مگر آقائے کریم ﷺ کے اہل خانہ اور قرابت داروں کو نسبت رسالت کی بنا پر خصوصی شرف وفضیلت حاصل ہے۔
(ب) حضور ﷺ کے اہل بیت میں ازواج مطہرات کے علاوہ مولائے کائنات علی المرتضٰی، خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہرا اور حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہم بھی شامل ہیں۔
(ج) اس خصوص وشرف میں سیدہ فاطمہ زہرا ممتاز ومنفرد ہیں کہ حضور سید عالم ﷺ نے ان کی اولاد کو اپنی اولاد قرار دیا:
فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَاَبۡنَآءَکُمۡ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَکُمۡ وَاَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ۔(سورہ آل عمران:61)
"تو ان سے فرما دو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں، پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔”
اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ اپنے ساتھ حضرت علی وفاطمہ اور حسنین کریمین کو لیکر حاضر ہوئے۔یعنی حضور نے حسنین کریمین کو اپنا بیٹا قرار دیا۔اس آیت تشریح اس حدیث سے بھی ہوتی ہے:
عَنْ عُمْرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه قَالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ يَقُوْلُ:کُلُّ بَنِي أُنْثَي فَإِنَّ عُصْبَتَهُمْ لِأبِيْهِمْ مَا خَلَا وَلَدِ فَاطِمَة فَإِنِّي أنَا عُصْبَتُهُمْ، وَ أنَا أبُوْهُمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
(رقم الحديث:13 أخرجه الطبراني في المعجم الکبير،3/ 44، الرقم :2631)
"حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :ہر عورت کے بیٹوں کی نسبت ان کے باپ کی طرف ہوتی ہے ماسوائے فاطمہ کی اولاد کے، کہ میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں۔”
ان مقدمات کی روشنی میں یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ حضور سید عالم ﷺ نے اولاد فاطمہ کو اپنی اولاد قرار دیا۔اور اسے حضرت فاطمہ کی خصوصیت قرار دیا کہ ان کی اولادیں اپنے باپ نہیں نانا کے نام سے پہچانی جائیں گی۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حضور سید عالم ﷺ چاہتے تو اپنے شفیق چچا اور حضرت علی المرتضٰی کے والد جناب ابوطالب کا نام بھی لے سکتے تھے کیوں کہ وہ رشتے میں حسنین کریمین کے دادا ہوتے ہیں مگر سرکار نے مقام فضیلت میں خود کو ہی اولاد فاطمہ کا حسب ونسب قرار دیا۔
فضائل حسنین اور اسلوب رسول
ایک موقع پر حضور سید عالم ﷺ نے حسنین کریمین کی فضیلت وبزرگی بیان کرتے ہوئے خود کا اور دیگر اہل خانہ کا تفصیلی تذکرہ فرمایا مگر اپنے مہربان چچا اور حسنین کے دادا کا تذکرہ نہیں فرمایا، الفاظ حدیث ملاحظہ فرمائیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : أيُهَا النَّاس، ألاَ أُخْبِرُکُمْ بِخَيْرِ النَّاسِ جَدًّا وَ جَدَّة؟ ألاَ أُخْبِرُکُمْ بِخَيْرِ النَّاسِ عَمًّا وَ عَمَّة؟ أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِخَيْرِ النَّاسِ خَالًا وَخَالَة؟ ألَا أُخْبِرُکُمْ بِخَيْرِ النَّاسِ أبًّا وَأُمًّا؟ هُمَا الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، جَدُّهُمَا رَسُوْلُ اﷲِ وَ جَدَّتُهُمَا خَدِيْجَة بِنْتُ خُوَيْلَدٍ، وَأُمُّهُمَا فَاطِمَة بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ، وَأبُوْهُمَا عَلِيُّ بْنُ أبِي طَالِبٍ وَعَمُّهُمَا جَعْفَرُ بْنُ أبِيْ طَالِبٍ، وَعَمَّتُهُمَا أُمُّ هَانِي بِنْتُ أبِي طَالِبٍ وَخَالُهُمَا الْقَاسِمُ بْنُ رَسُوْلِ اﷲِ وَخَالَاتُهُمَا زَيْنَبُ وَ رُقَيَة وَ أُمُّ کَلْثُوْمَ بِنَاتُ رَسُوْلِ اﷲِ، جَدُّهُمَا فِي الْجَنَّة وَ أبُوْهُمَا فِي الْجَنَّة وَ أُمُّهُمَا فِي الْجَنَّة عَمُّهُمَا فِي الْجَنَّة وَعَمَّتُهُمَا فِي الْجَنَّة وَخَالَاتُهُمَا فِي الْجَنَّة وَهُمَا فِي الْجَنَّة. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
(أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 66، الرقم:2682)
"حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو (اپنے) نانا نانی کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟
کیا میں تمہیں ان کے بارے نہ بتاؤں جو (اپنے) چچا اور پھوپی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟
کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو (اپنے) ماموں اور خالہ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟
کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو (اپنے) ماں باپ کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟
وہ حسن اور حسین ہیں، ان کے نانا ﷲ کے رسول، ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد، ان کی والدہ فاطمہ بنت رسولﷲ، ان کے والد علی بن ابو طالب، ان کے چچا جعفر بن ابو طالب، ان کی پھوپھی ام ہانی بنت ابو طالب، ان کے ماموں قاسم بن رسول ﷲ اور ان کی خالہ رسولﷲ کی بیٹیاں زینب، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔ ان کے نانا، والد، والدہ، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ (سب) جنت میں ہوں گے اور وہ دونوں (حسنین کریمین) بھی جنت میں ہوں گے۔”
اس حدیث پاک میں انتہائی صراحت کے ساتھ امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کے فضل و کمال بیان کرتے ہوئے حضور نے ان کے جن رشتوں کا ذکر فرمایا وہ اس طرح ہیں:
1- نانا اور نانی
2- والد اور والدہ
3- چچا اور پھوپی
4- ماموں اور خالائیں
یعنی حضور نے حسنین کریمین کا تعارف ان کے نانا نانی سے بھی کرایا اور والدین سے بھی!
ان کے چچا کا ذکر کیا تو پھوپی کو بھی یاد فرمایا۔ان کے ماموں کا نام لیا تو ان کی عزت مآب خالاؤں کو بھی یاد فرمایا۔
غور فرمائیں!
آخر حضور نے اتنے رشتے گنائے مگر دادا کا نام نہیں لیا؟
حالانکہ عام قاعدہ یہ ہے کہ نانا سے بھی پہلے دادا کا نام لیا جاتا ہے۔مگر اسے بھی حسنین کریمین کی خصوصیت ہی کہا جائے گا کہ ان کا تعارف "عام قاعدہ” کے تحت نہیں بلکہ "خاص قاعدہ” کے تحت کیا جائے۔
حضرت علی کا طرز عمل
مسند احمد بن حنبل کی روایت کے مطابق جب امام حسن پیدا ہوئے تو حضرت علی نے ان کا نام اپنے چچا حضرت امیر حمزہ کے نام پر "حمزہ” رکھا اور امام حسین کی پیدائش پر ان کا نام اپنے بھائی جعفر طیار کے نام پر "جعفر” رکھا تھا۔حالانکہ بعد میں حضور نے دونوں شہزادوں کے نام تبدیل فرماکر حسن وحسین رکھے۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 159، وأبو يعلي في المسند، 1 : 384، الرقم : 498، و الحاکم في المستدرک، 4 / 308، الرقم : 7734)
یہاں بھی غور کرنے کی بات ہے کہ مولی علی نے اپنے فرزندوں کے نام اپنے چچا اور بھائی کے نام پر تو رکھے لیکن معاملہ فہمی میں مشہور اپنے والد ابوطالب کے نام پر کسی کا نام نہیں رکھا۔حالانکہ عربوں میں بچوں کا نام ان کے داداؤں پر رکھنے کا رواج رہا ہے لیکن پھر بھی مولائے کائنات نے نام رکھنے میں اپنے شیر دل چچا سید الشہدا امیر حمزہ اور اپنے جانباز بھائی حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہما کو ترجیح دی یعنی مولی علی بھی حسنین کے ناموں کے ساتھ دادا کے بھائی اور بیٹے کا نام تو جوڑتے ہیں مگر دادا کا نہیں۔
امام حسین کا طرز عمل
آقائے کریم ﷺ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بعد سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا طرز عمل بھی ملاحظہ فرمائیں کہ آپ کس طرح اپنی فضیلت وبرتری بیان فرماتے ہیں۔میدان کربلا میں امام پاک یزیدیوں سے اتمام حجت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
راجعوا أنفسكم وحاسبوها، وانظروا هل يصلح لكم قتال مثلي، وأنا أبن بنت نبيكم، وليس علي وجه الأرض أبن بنت نبي غيري، وعلي ابي، وجعفر ذوالجناحين عمي، وحمزة سيد الشهداء عم ابي، وقال لي رسول الله ولأخي :”هذان سيدا شباب اهل الجنة۔”
(البدایہ و النہایہ ج:8 ص:179)
"اپنے نفسوں کو ٹٹولو اور اپنا محاسبہ کرو۔کیا میرے جیسے شخص سے جنگ کرنا تمہارے لیے مناسب ہے؟
میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا ہوں اور روئے زمین پر میرے سوا نبی کا کوئی اور نواسا موجود نہیں ہے۔حضرت علی میرے باپ حضرت جعفر ذوالجناحین میرے چچا اور سید الشہدا حضرت امیر حمزہ میرے والد کے چچا ہیں۔رسول اللہ ﷺ میرے اور میرے بھائی کے لیے ہی فرمایا ہے کہ "حسن وحسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔”
اس اقتباس پر غور فرمائیں کہ امام پاک اپنے فضل وکمال کا ذکر کرتے ہوئے اپنے نانا سید عالمﷺ ، اپنی والدہ خاتون جنت، اپنے والد مولائے کائنات، اپنے چچا جعفر طیار اور اپنے والد کے چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہم کا ذکر تو فرماتے ہیں مگر اپنے حقیقی دادا کا مطلق ذکر نہیں فرماتے۔
اسی خطبے کو شیعہ مکتب فکر بھی اپنے نظریے کے حساب سے ردوبدل کرکے یوں پیش کرتے ہیں:
أَ لَسْتُ ابْنَ بِنْتِ نَبِيِّكُمْ وَ ابْنَ وَصِيِّهِ وَ ابْنِ عَمِّهِ وَ أَوَّلِ الْمُؤْمِنِينَ الْمُصَدِّقِ لِرَسُولِ اللَّهِ بِمَا جَاءَ بِهِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ أَ وَ لَيْسَ حَمْزَةُ سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ عَمِّي أَ وَ لَيْسَ جَعْفَرٌ الطَّيَّارُ فِي الْجَنَّةِ بِجِنَاحَيْنِ عَمِّي۔(الارشاد،از شیخ مفید، تہران، ج۲، ص۱۰۰-۱۰۱۔)
"کیا میں تمہارے نیی کی بیٹی اور اس کے وصی کا لخت جگر نہیں ہوں؟
میرے بابا وہ ہیں جو رسول کے چچا زاد بھائی ہیں۔اور وہ ہیں جس نے سب سے پہلے رسول خدا کی تصدیق کی اور ایمان لائے۔ کیا حضرت حمزه سیدالشهدا میرے چچا نہیں ہیں؟ کیا جعفر بن ابیطالب جو بہشت میں دو پروں کے ساتھ پرواز کریں گے، میرے چچا نہیں ہیں؟
مقام غور ہے!
کہ امام حسین دشمنوں کے نرغے میں اپنے فضائل اور خاندانی کمالات گناتے ہوئے وہی اسلوب اور طرز و انداز اختیار فرماتے ہیں جو انہیں اپنے والد اور نانا جان سے ملا تھا۔سب سے پہلے اپنے نانا جان، والدین کریمین ، امیر حمزہ اور اپنے چچا حضرت جعفر طیار کا تذکرہ فرماتے ہیں مگر یہ بالکل نہیں فرماتے کہ میں ابو طالب کا پوتا ہوں۔ان اقتباسات کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ حسنین کریمین کے فضل وبزرگی اور تعارف میں وہی اسلوب محمود ہے جو نبی اکرم ﷺ حضرت مولی علی اور خود امام پاک رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے۔اتنی واضح شہادتوں کے ہوتے ہوئے وہ کون سی فکر ہے جو امام حسین کی فضیلت کے نام پر خود ساختہ فکر تھوپنا چاہتی ہے؟
جو طریقہ رسول کے خلاف ہے۔جس اسلوب سے مولائے کائنات کی مخالفت ہوتی ہے۔جس طریقے سے خود امام حسین کی مخالفت لازم آتی ہے۔
آخر!
بعض خانقاہی سادات کس فکر کے زیر اثر اپنے آبا واجداد کی فکری مخالفت پر آمادہ ہیں؟
آخر!
کس لیے طریقہ مصطفیٰ چھوڑ کر ایک نیا طریقہ ایجاد کیا جارہا ہے؟
آخر!
وہ کون سے عوامل ہیں جن کی بنیاد پر مولائے کائنات کے طرز عمل کو ترک کیا جارہا ہے؟
آخر!
وہ کون سی وجہ ہے جس کی بنا پر امام حسین کے خطبہ کربلا کے اسلوب بیان کے سامنے خود ساختہ اسلوب بیان تھوپا جارہا ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ان سادات سے جواب چاہتے ہیں جو نئی فکر کے زیر اثر اپنے اجداد کی تعلیم کی کھلی بغاوت پر آمادہ ہیں۔
خوب یاد رکھیں!
طریقہ سلف کو چھوڑ کر نئی راہوں کا مسافر بننا خود کو منزل مقصود سے دور لے جانا ہے۔براہ کرم خود پر بھی رحم کھائیں اور جماعت اہل سنت پر بھی ترس کھائیں۔فتنوں کے اس دور میں اکابرین سے وابستگی ہی ذریعہ نجات ہے۔اس لیے دل ودماغ کو ہمیشہ بیدار رکھیں اور رافضی فتنوں سے ہوشیار رہیں۔
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
ماشاء اللہ
غلام مصطفی نعیمی بھائی