صحابہ کرام

خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر: یار غار محمد مصطفیٰ کی جو یاد آئی …..!

تحریر: عین الحق امینی قاسمی، بیگوسرائے، بہار

انبیاء ورسل کے بعد جوشخصیت سب سے زیادہ قابل نمونہ ،جس کی سیرت اسوہ اور جس کا کردار لائق تعریف وتحسین ، وہ ہے بلا فصل خلیفہ اول ،یار غار محمد مصطفے، سید نا ابوبکر صدیق کی ذات عالی مرتبت !
صدیق اکبر نے پوری زندگی اپنے تئیں جو بھروسہ بنایا تھا ،وہ اعتماد تا عمر بحال رکھا "صدیق "کے خطاب کو نبھا کر دکھا یا ،ایک موڑ ایسا بھی آیا جب بیٹی کے تعلق سے کچھ ناموافق باتیں سن کر ،بیٹی سے ضرور ایک لمحہ کے لئے بددل سے ہوگئےتھے ،مگر بیٹی کا طرف دار بن کر حضور عالی وقار اور اپنے محسن ومربی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یک ساعت کے لئے بھی دل میں کسی طرح کی کوئی بات رکھنے کے روادار نہ ہوئے۔عقیدت ومحبت کی ایسی کوئی تاریخ نظر سے نہیں گزری، جس میں احترام باہمی کو ایسی پائدار جگہ دی گئی ہو ،جب حضرت ابوبکر بن ابو قحافہ کے سامنے توحید ورسالت کی دعوت پیش کی گئی تو انہوں نے بلا تردد نہ صرف اس دعوت کو قبول کیا ،بلکہ سیدھے اپنے گھر گئے اور اہل خانہ کے سامنے بھی دعوت توحید پیش کی ،حضرت اسماء بنت ابو بکر بیان کرتی ہیں کہ جب تک ہم لوگ مشرف باسلام نہ ہوگئے وہ ہماری مجلس سے نہ اٹھے ۔ اس طرح سے انہیں نہ صرف آزاد مردوں میں سب سے پہلے کلمہ پڑھنے کا شرف حاصل ہے ،بلکہ اپنے اہل خانہ کو اسلام میں داخل کرنے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے ۔ واقعہ معراج کو جب ان کے سامنے پیش کیا گیا، تو یہی وہ عظیم انسان تھے ،جنہوں نے اس کی ہر پہلو سے تصدیق کی ۔
کئی جہتوں سے خلیفہ اول کی سیرت ،ہمارے لئے نمونہ ہے ،انہوں نے پوری زندگی مکہ میں دین اسلام کی تبلیغ اور اس کی اشاعت کے لئے بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں ،اس تبلیغ کے نتیجے میں دین اسلام کے دشمنوں نے انہیں اتنا زدوکوب کیا کہ لوگوں کے پہچان میں آنے سے قاصر وہ ہوگئے ،پوری زندگی مکہ مکرمہ میں انہوں نےاپنے یار غار کا ساتھ نبھایا ،تا آں کہ ہجرت کا حکم ملا اور وہ حضور کے ساتھ ہجرت کے لئے بلاچوں وچرا آمادہ ہوگئے ،پوراگھرانہ عقیدت ومحبت کا مجسمہ ،یہاں تک کہ حضرت اسماء نے ہجرت کی راہ میں کچھ دور تک خوردونوش کا بھی نظم کردیا اور جب سیدنا ابو بکر دشمنوں کے حملوں سے تحفظ کے لئے اپنے یار غار کو لے کر ایک غار میں چھپتے ہیں تو وہاں بھی ظلمت بھرے اس غار میں محبتوں کا مجسمہ بن جاتے ہیں اور اپنے نبی کی حفاظت کے لئے، غار میں پہلے سے بنے سوراخوں پر دست محبت ڈال دیتے ہیں تاکہ ان کے محبوب کو کوئی موذی گزند نہ پہنچا سکے۔
مدینہ پہنچ کر حضور کے مشن میں ساتھ ہوکر ذہنی ہم آہنگی کا ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ وہ نقش تامرگ قائم رہ گیا ،بلکہ حضور کے وصال کے وقت جب بڑے بڑے صحابہ آپا کھو رہے تھے تب وہ صدیق اکبر ہی تھے ،جنہوں نے یہ کہہ کر ماحول کو قابو میں کرنے کی جرئت کی تھی کہ :محمد اللہ کے رسول تھے اور آپ سے پہلے تمام انبیاؤں کو موت سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔اسی طرح بعد وصال محمد مصطفی جب مانعین زکواۃ سے مقابلے کی باری آئی توان سبھوں سے صاف صاف فرمادیاکہ دین میں کتر وبیونت ہو اور ابوبکر زندہ رہے یہ ناممکن ہے ،بلکہ ان تمام مانعین زکواۃ سے کہاکہ اگر تم حضور کے سامنے بکریوں کی زکواۃ اس کی رسی سمیت اداکررہے تھے تو، آج بھی تمہیں اسی کا حکم ہے ،حالاں کہ بعض مصلحت پسند احباب نے اس وقت بھی یہ ضرور کہا کہ حضور کے بعد ابوبکر کو اپنے موقف میں کچھ لچیلاپن رکھنا ہوگا ،ورنہ یہ لوگ ممکن ہے کہ دین سے پھر جائیں ۔ حضرت ابو بکر نے بھی ان مصلحین سے کہلا بھیجا کہ اگر وہ لوگ محض محمد رسول اللہ پر ایمان لائے تھے توسن لیں کہ محمد کا وصال ہوگیا اوراگر انہوں نے اللہ اور اس کے احکام کو تسلیم کیا ہے ،تو وہ اللہ آج بھی زندہ ہے اور تاقیامت اس کی شریعت باقی رہے گی،جولوگ بھی الٹے پاؤں پھریں گے ،وہ اللہ کا کچھ بھی نقصان نہیں کریں گے ۔
شاہوں کے دسترخوان اپنی جگہ ،مگر محبوب دوجہاں کی سنتوں کی افضلیت اور اصلیت کیسے کم ہوسکتی ہے ،صدیق اکبر نے ایسے موقع پر بھی دوٹوک فرمادیا کہ کیا ان شاہوں کی وجہ سے میں اپنے آقا کی سنت کوچھوڑ دوں ؟اور زندگی بھراپنے محبوب کی ایک ایک سنت پر عمل کرکے دکھلاگئے۔اسی طرح دین اسلام کی نصرت اور اس کو مستحکم کرنے لئے جو مالی قربانیاں دی ہیں ،وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔
سچائی یہ ہے کہ عقیدت ومحبت اور اس پر ثابت قدمی رہنے کے باب میں سیدنا ابو بکر صدیق نے جو مثال قائم کی ہے ،وہ اتنے برس بعد آج بھی ہم سب کے لئے آئنہ ہے ،ضرورت ہے کہ اس آئنے میں ہم سب اپنی اپنی زندگی کو دیکھیں کہ ہم فرمان رسول کی پاسداری کرنے میں کتنے مستعد ہیں اور دین کے کتنے حصے پر ہمارا عمل ہے،سیدنا صدیق اکبر نے عقیدت ومحبت کے باب میں تمام طرح کے غلو اور بے راہ روی پر بند باندھ کر یہ ثابت کردیا کہ اصل عقیدت ومحبت محمد مصطفی کی کامل پیروی اور اتباع سنت ہے ۔
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے