ازقلم: محمد طاسين ندوی
دنیا نے بہت بہاریں دیکھی نہ جانے کتنے مصائب و آلام آئے اور چلے گئے لیکن سن عیسوی ۲۰۲۰میں جو مصیبت و آزمائش آئی وہ تا ہنوز جاری ہے اور اللہ کو معلوم کب تک انسان عالم اس المناک بھٹی میں تپتے رہیں گے
یقینا یہ ممکن ہیکہ اس آزمائش سے ضرور نکلیں لیکن کب تک یہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں لیل و نہار کا زمام کار ہے فرمان نبوی ہے ” وأنا الدهر، بيدي الأمر، أقلب الليل والنهار "متفق علیہ بلاشبہ وہ جیسا چاہے، جوچاہے،جب چاہے کرسکتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے چونکہ ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں تو یہی مقتضائے ایمان بھی ہے.
لیکن کیا ہم نے غور کیا کہ ایسے پر آشوب دور میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا تو میں بحیثیت ایک مولوی یہ ضرور کہونگا کہ تعلیم و تعلم سے دوری ہوئی، مدارس بند ہوئے، تنخواہیں بند ہوئیں، لیکن خود اعتمادی ضرور پیدا ہوئی ہمارا بڑا طبقہ جنہوں نے اپنا انحصار مدارس کی تنخواہ پر کیا تھا انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں، فضا کی رنگینیاں دیکھیں، محنت سے جی چراتے تھے اسکا خون کیا محنت کی طرف قدم بڑھایا اور اپنے کو کسی لائق بنانے کی تگ و دو کیا الغرض جو ہمارا میدان”تجارت” ابتداء سے ہونا چاہئیے تھا -مرتا کیانہ کرتا-اس کی طرف پلٹے تو میں کہونگا کہ یہ حالات من وجہ ہمارے لئے باعث خیر بھی ہے اور ہو کیوں نہ کہ جبکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے میں اپنے بندوں کے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں،
. تو کیا اس مالک حقیقی کو ہمارے ایسے حالت زار -جس میں بہت سے انسان سوکھی روٹی کو بھی ترس رہے ہیں – پر رحم نہیں آئیگا؟ یقینا آئیگا اللہ نے ہمیں ایک موقع اپنے کو مضبوط کرنے کے لئے عنایت کیا ہے ہم علماء طبقہ کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ہم کبھی مسجد میں امام، مدارس میں استاذہواکرتے تھے پورے معیشت کا انحصار ان معمولی تنخواہوں پر ہوا کرتی تھی تو اب اللہ نے ایسا موقع دیا ہیکہ ہم کچھ کرلیں تاکہ معیشت جو ہمارا بڑا مسئلہ ہے اس کا حل سنت نبوی پر گامزن ہوکر نکالیں کیونکہ تجارت سنت ہے اور اگر امانت داری اور دیانت داری سے کیا جائے تو باعث رحمت و برکت بھی اور ہمیں اس کام کے لئے کمربستہ ہونا چاہئے وساوس شیطان کو منوں مٹی تلے دفن کر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کا مصداق ہونا چاہئے کہ
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
قارئین کرام!ہمارے دلوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ اس وقت دنیائے آب وگل ایسے حالات سے دوچار ہیکہ کوئی قرض بھی نہیں دے سکتا سب کسم پرسی کے عالم میں ہیں راس المال اور پونجی کہاں سے آئے تو یاد رکھئیے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی تجارت کی شروعات دوکیلو پنیر سے کیا تھا لیکن جب اس دار فانی سے رحلت کر گئے اسوقت ان کے خزانے سیم زر سے بھرے تھے
اللہ نے اتنا مال و منال سے سرفراز کیوں کیا،ایسا اسلئے ہوا کہ انہوں نے اپنا ایک مستحکم اصول بنایا تھا کہ سامان ادھار نہیں خریدنا ہے اور ناہی ادھار فروخت کرنا ہے اور ادخار بھی نہیں کرنا ہے چاہے ایک روپے منافع ہو فروخت کردینا ہے نہ کہ دس روپے منافع کے انتظار میں عوام الناس کو ایذا پہنچانا ہے ،ہمیں چاہئیے کہ ہم بھی اپنا ایک منظم و مستحکم اصول پر کار بند ہوکر تجارت کی طرف پیش رفت کریں ان شاء اللہ ایک دن کامیابی ضرور قدم بوسی کریگی
اللہ سے دعا ہیکہ اللہ ہم علماء اسلام کی دستگیری فرمائے معاشرے میں معزز و بھلا انسان بنائے آمین یارب العالمین