تحریر: محمد شفیق فیضی، سدھارتھ نگر
گذشتہ 9 فروری کو راجیہ سبھا رکن اور حزب مخالف لیڈر غلام نبی آزاد اپنی داستان غم سناتے ہوئے اس قدر جذباتی ہوگئے کہ ان کی آنکھیں بھر آئیں، راجیہ سبھا کی اپنی آخری تقریر میں انہوں نے بہت کچھ کہا ، وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر انڈین نیشنل کانگریس کی سابق صدر محترمہ سونیا گاندھی تک مختلف سیاسی ماہرین کا ذکر کیا، خاص کر کشمیریوں کے تعلق سے ناقابل فراموش باتیں کہیں، ان کے مطابق ان کی سیاسی زندگی کشمیریوں کی مرہون منت ہے ، ان کے تئیں کشمیری عوام کی ہمدردی اور لگاؤ کواس بات سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ کشمیری عوام کی بے انتہا خلوص ومحبت کی بدولت انہیں جمو و کشمیر کا وزیراعلیٰ بننا میسرہوا جو اس بات کی دلیل ہے کہ کشمیری عوام کی ان سے کافی امیدیں وابستہ رہی ہوں گی،لیکن غلام نبی آزاد نے کشمیر کے لئے کیا کیا ، لیکن فی الحال یہ معمہ زیایدہ توجہ طلب ہے کہ کانگریسی ’’غلام‘‘ نبی آزاد راجیہ سبھا میںکیوں روئے، آخر ایسی کونسی بات ہوگئی جس پر وہ آبدیدہ ہوگئے، ایسا بھی نہیں ہے کہ رونے کا دورہ پڑتا ہو جو اچانک ہی آدھمکا ہوان کی اس خطرناک بیماری کا ابھی علم ہی ہوا تھا کہ بعض سیاسی ماہرین سے خبر ملی کہ آزاد صاحب کے رونے پر اس قدر کبیدہ خاطر ہونے کی کوئی ضرورت نہیںہے آج کی سیاست میں مگرمچھ کے آنسو بہانا سیاسی شعبدہ بازوںکی ایک چال بھی ہوسکتی ہے بہرحال معاملہ چاہے جو بھی ہو لیکن ان کے رونے کا عمل دیکھ کر ایک بار تو لگا کہ کہیں ’’اسیسی‘‘ کے راہب ’’فرانسس‘‘ کی طرح بڑھاپے میں اپنی بینائی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیںوہ تو بھلا ہو کہ کچھ ہی لمحات میں اپنے اشکوں کے سیل رواں پر قابو پالیا ورنہ ہمیں تو یقین ہوچلا تھا کہ ایک عرصۂ درازسے کانگریس کے نام نہاد سیکولرزم نے ہندوستانی مسلمانوںپرجتنے بھی مظالم ڈھائے ہیں، سبھی کا داغ دھوکر ہی دم لیںگے۔
کسی کو قطعاً حق نہیں ہے کہ کانگریس یاکسی بھی سیکولر جماعت کے کسی ادنیٰ سے لیڈر کا بھی کا مذاق اڑائے، اور اگر ایسا کسی کو محسوس ہو تو فوراً توبہ و استغفار لازم ہے کیونکہ ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جس سیکولرزم نے ہندوستانی مسلمانوں کے ارمانوں کا خون کرنے میں نصف صدی سے زیادہ کا وقت لگا دیا ہو اس کی تضحیک کی جائے ہاںغلام نبی آزاد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے بس اتنا کہنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ کچھ بھی ہو جناب والا! سیاسی لیڈران کا رونا کوئی معمولی عمل نہیں ہوتا، برسوں پہلے بھی ایک شخص نے اسی طرح اپنے آنسوؤں کی گنگا بہا کر لوگوں کے ارمانوں کا خون کیاتھا ، گاندھی جی کے گجرات کو لہولہان کرنے کے بعد انہیں آنسوؤں کے بدولت وہ ملک کی وزارت عظمیٰ کے عالی مرتبت کرسی پر قابض ہے، یقین مانئے جب سے اس چھپن انچ کے سینے والے آدمی نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے عوام کی جان پر بن آئی ہے کیا جوان کیا کسان سبھی کو گھروں سے نکال کر کھلے آسمان کا مکین بنادیا ہے ، تاریخ شاہد ہے سیاست میں رونے کے بہت فائدے ہیں، 19 مارچ 2017 کو بھی ایک صاحب غیرت کو اپنی حالت زار پر رونا آیا تھا ، شاید ہندوستان کی تاریخ میںایسا پہلی بار ہوا جب ایک ممبر پارلیمنٹ آپ بیتی سناتے ہوئے پارلیمنٹ میں پھوٹ پھوٹ کر رویا ہو ، دنیا ششدر و حیران رہ گئی کہ ہندوستانی جمہوریت میں اب عوامی نمائندے بھی انصاف کی خاطر دودھ منھے بچے کی طرح رونے بلبلانے پر مجبور ہیں، اچھی بات یہ رہی کہ ملک میں لائیو ٹیلی کاسٹ صرف پارلیمنٹ اور راجیہ سبھا جیسے آئینی اداروں کاہی ہوتا ہے ورنہ بھارت میں عام آدمی کو انصاف کے لئے کس قدر چیخنا اور چلانا پڑتا ہے یہ دیکھ کر دنیا کا ہندوستانی جمہوریت اور انصاف سے بھروسہ ہی اٹھ جاتا، اتفاق دیکھئے کہ 19 مارچ 2017 کو پارلیمنٹ میں رونے والے مہامہم بھی آج ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے وزیر اعلیٰ بن کر عدل و انصاف کی گنگا بہارہے ہیں۔
رونے سے کوئی گلہ یا شکوہ نہیں، بس ایک درد ہے جو رہ رہ کر سینے میں اٹھتا ہے کہ آخر رونے میں بھی اس قدر تعصب پرستی کیوں؟ کانگریسی ’’ غلام‘‘ نبی آزاد صاحب گستاخی معاف کیجئے گا، سبھی کا رونا تو سمجھ میں آیا لیکن آپ کے رونے کا سبب کیا ہے یہ عقل سے بالاتر ہے ، آپ کے رونے میں کس چیز کا درد پنہاں ہے کافی جد جہد کے بعد بھی سمجھ کے باہر ہے، لاشیں دیکھ کر رونا بھی اتنا خاص نہیں ہے کہ آپ جیسا مردآہن بلبلا اٹھے، ویسے بھی آزاد ہندوستان میں لاشوں کی سیاست کوئی نئی بات تو نہیں، سیاسی رہزنوں کا یہی وہ ہتھیار ہے جس کو عبور کرنے کے بعد ہی ان کی سیاست میں چار چاند لگتے ہیں ،موہن کرم چندمہاتما گاندھی کی موت پرآپ کے رنج و غم کو ہم سمجھ سکتے ہیں لیکن 1984 میںآپ اس وقت کیوں نہیں روئے جب دارالحکومت دہلی کے کوچہ و بازار کو سکھوں کے خون ناحق سے سرخ کردیا گیا، ان کی بہن، بہو اور بیٹیوں کی چادر عصمت کو تار تار کیاگیا، لاشیں دیکھ کر روناسبھی کو آتاہے لیکن کسی اندرا گاندھی کی لاش پر ہی صف ماتم کیوں بچھتی ہے 1980 مرادآبادکے مہلوکین پر کیوں نہیں ،1987 ہاشم پورہ، میرٹھ، ملیانہ سمیت ملک میں 50 ہزار سے زائد مسلم نسل کشی پر آپ کی آنکھیں نم کیوں نہیں ہوتیں ، کیا اس لئے کہ آپ اور آپ کی پوری پارٹی موضوعی نظریۂ فکرکے اردگرد ہی گردش کرتی ہے، یاپھر آپ کا رونا محض ایک ڈھونگ ہے ، لیکن یہ ڈھونگ صرف راجیو گاندھی کی موت پر ہی کیوں ؟ دو اشک ہی سہی گجرات کے لئے کیوں نہیں،احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کے درد پر آپ کی آنکھوں کا چھلکنا تو دور زبانی جمع خرچ سے بھی جاتے رہے، گجرات کے تیرتھ یاتریوںپر ہوئے حملوں سے دکھی ہوکر آپ کی آنکھیں بھر آئیںاس کا گلہ نہیں لیکن یقین مانئے وہی آنسو
جب
اجمیر دھماکوں میں مارے گئے مسلمانوں کے درد میں نہیں بہتے تو آپ کی تعصب پرستی اورنا انصافی ایک عام مسلمان کو کتنا رلاتی ہے آپ اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ، کشمیر کے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے کشمیریوں کی 99 ایکڑ زمین کو آپ نے امرناتھ شرائین بورڈکو دئے جانے کی تجویز پاس کردی جس کے نتیجے میں 5لاکھ کشمیری سڑکوں پر آگئے ، کشمیر کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا عوامی مظاہرہ تھا جس کو کچلنے کے لئے درجنوں کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تب آپ کے آنکھوں کا پانی کہاں مر گیا تھا، کشمیری عوام کے ٹکڑوں پر داد عیش دینے والے کی آنکھیں اس وقت نم کیوں نہیں ہوتیں جب فرضی انکاؤنٹر میں کشمیری نوجوانوں کو موت کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سلادیا جاتا ہے، لاشوں کا مطالبہ کرنے پر ان کے اہل خانہ پر UAPA سمیت مختلف دفعات میں مقدمے درج کردئے جاتے ہیں، جب پورے کشمیر کو گوانتاناموبے نما جیل میں تبدیل کردیا جاتا ہے، کشمیریوں سے ان کی کشمیریت چھین لی جاتی توآپ کی غیرتمند آنکھوںکی حمیت کا جنازہ کیوں نکل جاتا ہے، آپ جتنا مرضی ہو خون کے آنسو بہا لیجئے لیکن مگرمچھ کے ان آنسوؤں سے 6 دسمبر 1992 کے داغوں کو دھویا نہیں جاسکتا، بابری مسجد کی لاشوں پرر ام مندر کی تعمیر پرکانگریس کو شرم آئے یا نہ آئے لیکن ایک مسلمان ہونے کے باعث آپ دو اشک ہی بہا لیتے، لیکن افسو س آپ سے یہ بھی نہ ہوا ، آپ کی اسی بے غیرتی اور غلامانہ ذہنیت پرہندوستان ہی نہیں پوری دنیا تھوک رہی ہے، آپ کے دور حکومت میںہزاروں بے گناہ مسلم نوجوانوں کو فرضی دہشت گردی کے الزام میں جیل کی کال کوٹھریوں میں بند کردیا گیا، جو ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ کر آج عدالتوں سے باعزت بری ہورہے ہیں، لیکن آپ ان کی لٹ چکی جوانی، ان کے بھائی برادر اور احباب پر لگے بدنماداغ، ان کی کربناک داستان الم سے بھی آبدیدہ نہیں ہوئے، ظلم و زیادتی اور مظلومیت کی آپ کے نزدیک کیا تعریف ہوسکتی ہے یہ تو نہیں معلوم لیکن آپ کے رونے کے پیچھے کونسا غم یا درد پنہاں ہے دیر سے سہی لیکن ملک کا مسلمان سمجھنے لگاہے ، یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ آپ پوری زندگی میں محض 5بار ہی کیوں روئے؟ اگر رونا ہی تھا تو 9 نومبر 2020 کو بھی رونا چاہئے تھا جب بابری مسجد مقدمہ میں انصاف کا منھ کالا کیا گیا، صف ماتم اس وقت بھی بچھنی چاہئے تھی جب کانگریس حکومت نے بابری مسجد کا تالا کھلوایا اورمذہبی رسومات کے ادائیگی کی اجازت دی ، ملک میں مسلمانوں کی دلتوں سے بدتر حالت ، 70 برسوں کی حرماں نصیبی کو دیکھ کر بھی آپ کا دل بھر نہیں آتا تو مجھ ناچیز کا مشورہ ہے کہ آپ کو ایک آخری بار زندہ درگور ہوچکی اپنی غیرت پر بھی رولینا چاہئے۔
جناب’’غلام‘‘ نبی آزاد صاحب ! آپ کی سیکولرسیاست میں رونے کا چلن بھی اگر تعصب پرستی پر مبنی ہے تو ناچیز کی رائے ہے کہ ایسی آنکھوں کا نہ ہونا ہی بہتر ہے جو رونے میں بھی مذہبی عصبیت اور منافرت کا شکار ہوں،حقیقت یہ ہے کہ راجیہ سبھا میں آپ کے رونے کی وجہ کوئی دردیا تکلیف نہیں بلکہ کانگریس کی جانب سے کئے گئے مسلمانوں پر مظالم کی پردہ پوشی آپ کا مقصد تھا ورنہ کیا ضرورت تھی کہ راجیہ سبھا میں گڑے گڑائے مردے اکھاڑے جائیں، اور کیا آپ کو یہ بات کچھ عجیب سی نہیں لگتی کہ جب ملک کی ایک بہت بڑی آبادی پر ڈر اور خوف کے بادل مزید گھنے ہوتے جارہے ہیں، ملک کا کسان سڑکوں پر بے یارومددگار پڑا ہے ایسے میں آپ کتنے مرتبہ روئے یہ راجیہ سبھا کی کارروائی کا موضوع کیسے ہوسکتا تھا، ملک کا سیکولر ڈھانچہ ڈھانے والوں سے جذباتی تالیاں حاصل کرنا کونسی قومی یا ملی ہمدردی ہوسکتی ہے، سی اے اے جیسا آئین مخالف قانون لاکر مسلمانوں کو ملک بدرکرنے کی سازشیں کرنے والوں، 3 طلاق قانون کے ذریعہ اسلامی اصولوں کی دھجیاں اڑانے والوں سے واہ واہی لوٹنے سے بھی اگر آپ کا دل نہیں بھرا تو عمر کے اس آخری پڑاؤ پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرلیں، اللہ بڑا کریم ہے وہ آپ کو معاف کردے گااور آخر میں اتنا اور کہوں گاکہ اللہ کی معافی کے بعد بھی ہم مسلمانان ہند پر سیکولرزم کی امین کانگریس کے ظلم و ستم آپ پر قرض رہیں گے۔