تحریر: صالحہ بیگم صالحاتی
کانپور
۲۵/فروری بروز جمعرات کو گجرات کی رہنے والی عائشہ جو عارف خان کی زوجہ تھی جہیز کی بھینٹ چڑھ گئی،
جب کوئی معاشرہ اللہ بزرگ و برتر کو بھلا دیتا ہے تو ایسے افراد کو جنم دیتا ہے جنکی نگاہوں کے سامنے صرف دنیا اور اسکے فوائد کا حصول ہوتا ہے۔
دولت مند جہیز جیسی مسرفانہ رسوم کا مظاہرہ کرتے ہیں۔جس کے نتیجے میں وہ خود تباہ ہوں یا نہ ہوں مگر انکی تقلید کرنے والی پوری برادری تباہ ہو جاتی ہے۔
جہیز لینے والو!
کبھی آپ نے یہ بھی سوچا ہےکہ آپ کی یہ شان و شوکت آپ،کے گھر کی یہ بہاریں،یہ چراغاں کچّے گھروں کے اندر مدھم اور سلگتے ہوۓ دیپوں کو منہ چڑھا رہے ہوتے ہیں ۔انکی احساسِ کمتری کو جگا رہے ہوتے ہیں ۔آج کتنے ہی بدن ایسے ہیں جن پر چتھڑے بھی ثابت نہیں ہیں ۔آج ایسے بھی ہیں جو عالیشان اور جگمگاتی کوٹھیوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر صرف آہ بھر کر رہ جاتے ہیں ۔کتنی ہی بن بیاہی ایسی ہیں جن کے والدین انکے ہاتھ پیلے نہیں کر سکتے،کتنے ہی آج ایسے ہیں جو اپنی بیٹیوں کی شادی کے لئے وقت سے قبل گھر سے بے گھر ہو جاتے ہیں، کتنے ہی والدین ایسے ہیں جنھوں نے حالات سے مجبور و مایوس ہوکر خودکشی کر لی،اور کتنی ہی مظلوم اور بے گناہ زندگی بھر کنواری رہ جاتی ہیں اور اپنی امنگوں اور تمناؤں کا مرثیہ پڑھتی ہوئ دم توڑ دیتی ہیں ۔
جو لوگ جہیز اور مسرفانہ رسوم کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ضیافتوں پر اپنی دولت لٹاتےہیں وہ معزز نہیں بلکہ معاشرہ کا ناسور ہوتے ہیں ناسور!
ایک حقیقت
در حقیقت اسلام ہم کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ شادی لڑکی والوں سے دولت سمیٹنے کا ذریعہ نہیں بلکہ مرد کو اللہ نے قوّام بنایا ہے اسکے لۓ یہ بات نہایت سخت توہین کی باعث ہے کہ وہ شادی سے چند دن یا چند لمحہ پہلے لڑکی والوں کے سر پرستوں کے سامنے جا کر جہیز کے نام پر دستِ سوال دراز کرے اور جب اپنی مراد پوری ہوتے نہ دیکھے تو کسی دوسری لڑکی کے در پے پہنچ جائے ۔
عارف خان کے جہیز کے مطالبے اور سخت گیری وسنگدلی نے عائشہ کو حد درجہ حسّاس بنا دیا تھا۔اسکا دل و دماغ اور جسم و روح جیسے زخموں سے چور چور ہو گیا تھا۔اسکو یہ فکر کھاۓ جا رہی تھی کہ میرے ماں باپ اب کہاں سے اسکے شوہر اور ساس سسر کے مطالبات پورے کر سکیں گے۔
جہیز اور اسکے نہ ہونے کی صورت میں ہزاروں روپے نقد کا مطالبہ اور اسکے نہ ہونے کی صورت میں بدنامی__ یہ سب سوچ کر اسکا دماغ پھٹا جا رہا تھا۔وہ ایسے تھی جیسے اسکو کسی نے آسمان سے زمین کی طرف پھینک دیا ہو،وہ تپتے ہوۓ ریگستان کے ایک ایسے مسافر کی طرح تھی جسے دھوپ کی تمازت نے بدحال کر دیا ہو۔اسی بے چینی کے عالم میں اس نے سابرماتی ندی میں چھلانگ لگا دی۔
سوچۓ قصور کس کا ہے؟؟عارف خان کا یا اس کی زوجہ عائشہ کا؟ یا اس سماج اور معاشرہ کا جو غریبوں کا خون چوسنے کے در پے ہیں؟؟
آج بے شمار عائشہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھی ہیں ۔در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں یا ندی میں چھلانگ لگا رہی ہیں اور کتنی ہی عائشہ زندگی بھر کنواری رہ جاتی ہیں۔
کاش کہ ہم جماعتِ اسلامی ہند کی بیٹیاں اور مائیں اپنے دل میں اسکے لۓ درد محسوس کریں ۔
اور مضبوط خاندان مضبوط سماج مہم کے بعد فالواپ پروگرام کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح کے کۓ کوئ قدم اٹھا سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جزاکن اللہ في الدارين خيرا