خیال آرائی: گل گلشن، ممبئی
کبھی خود کو بناتی ہوں کبھی پھر ٹوٹ جاتی ہوں
میرے دل کی جو حالت ہے وہ میں رب کو سناتی ہوں
وہ جو ہر شۓ میں شامل ہے وہ ہے ہر راز سے واقف
میں اس کو یاد کرتی ہوں تو ہر غم بھول جاتی ہوں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا مرے دل کی یہ حالت ہے
کہ اس کو یاد کر کے میں خود ہی خود کو ستاتی ہوں
کبھی تیری کہانی سے زمانے کو ہنساتی تھی
میں اب اپنی کہانی سے زمانے کو رلاتی ہوں
خدا کے واسطے تم یاد اپنی ساتھ لے جانا
تمہاری یاد آتی ہے تو میں مرجھا سی جاتی ہوں
یہ لہریں تلملا کر توڑ دیتی ہیں ہمیشہ گلؔ
سمندر کے کناروں پر میں جب بھی گھر بناتی ہوں