غزل گوشہ خواتین

غزل: خود ہی خود کو ستاتی ہوں

خیال آرائی: گل گلشن، ممبئی

کبھی خود کو بناتی ہوں کبھی پھر ٹوٹ جاتی ہوں
میرے دل کی جو حالت ہے وہ میں رب کو سناتی ہوں

وہ جو ہر شۓ میں شامل ہے وہ ہے ہر راز سے واقف
میں اس کو یاد کرتی ہوں تو ہر غم بھول جاتی ہوں

سمجھ میں کچھ نہیں آتا مرے دل کی یہ حالت ہے
کہ اس کو یاد کر کے میں خود ہی خود کو ستاتی ہوں

کبھی تیری کہانی سے زمانے کو ہنساتی تھی
میں اب اپنی کہانی سے زمانے کو رلاتی ہوں

خدا کے واسطے تم یاد اپنی ساتھ لے جانا
تمہاری یاد آتی ہے تو میں مرجھا سی جاتی ہوں

یہ لہریں تلملا کر توڑ دیتی ہیں ہمیشہ گلؔ
سمندر کے کناروں پر میں جب بھی گھر بناتی ہوں

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے