خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاکستان
تیری الجھن مجھے بتا کیا ہے
تیری بیماری کی دوا کیا ہے
پوچھو فرہاد اور مجنوں سے
دل سے دل تک کا راستہ کیا ہے
فتنہ پھیلا کے بن گیا معصوم
واہ قاتل تیری ادا کیا ہے
کوئی جانا نہ جان پاۓ گا
میری تقدیر میں لکھا کیا ہے
عیب اوروں کے آپ گنتے ہیں
دیکھو کہتا ہے دوسرا کیا ہے
دھول چہرے کی صاف کر پہلے
صاف کرتا ہے آئینہ کیا ہے
بات دل کی نہ دل میں رکھ فیضان
خود بتا دے تو چاہتا کیا ہے