کالم گوشہ خواتین

افسانہ: مرا ہوا آدمی

افسانہ نگار: گل گلشن، ممبئی

روز ہی کی طرح میں گھر سے کام کے لئے نکل رہا تھا۔کام کرنے کے لئے نہیں بلکہ ڈھونڈنے کے لئے کیونکہ لاک ڈاؤن کے بعد کہیں کام ہی نہیں مل رہا تھا۔گھر میں یہی بتایا تھا کہ کام پر جاتا ہوں تاکہ ان کی امید بندھی رہے کیونکہ آنچ پر رکھی خالی ہنڈیا بھی کھانا پکنے کا تصور دیتی ہے۔خیر آج شاید کچھ کام مل جاۓ۔لیکن پتہ نہیں کیوں آج دل بڑا بے چین تھا۔کبھی لگتا کہ کچھ بھول کر جا رہا ہوں ۔کبھی لگتا کہ کوئی بات کہنی رہ گئی۔کرتے کی جیبیں ٹٹولی ۔ایک میں صاف ستھرا رمال اور دوسری میں ٹوپی تھی۔بیوی نے کھانا باندھ کر ہاتھ میں دیا اور میں گھر سے نکل گیا۔چلتے چلتے گلی سے سڑک پر آ گیا۔کچھ دور ہی گیا تھا کہ کوئی دھماکہ سا ہوا۔مڑ کر دیکھا تو لوگوں کی بھیڑ جمع ہو رہی تھی۔شاید کوئی حادثہ ہوا تھا۔دل میں افسوس تو ہوا لیکن میں جا کر دیکھ نہیں پایا کہ ماجرا کیا ہے کیونکہ ایک تو آج صبح سے عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی اور دوسرا میں خون بہتا ہوا نہیں دیکھ پاتا تھا۔سر چکرانے لگتا تھا۔خیر میں کام کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔جہاں بھی جاتا کوئی دھیان نہیں دے رہا تھا۔لوگوں کے دل اتنے پتھر ہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے مجھ جیسا غریب انھیں دکھایی نہیں دے رہا ہو۔خیر میں نے ہر جگہ کام مانگا ۔لیکن صرف نہ امیدی ہاتھ آیی۔زیادہ تر دکانیں خالی تھیں ۔کیونکہ لاک ڈاؤن کے بعد مہنگائی بہت بڑھ گئی تھی۔انسان ضروریاتِ زندگی پوری کرے یا پھر خریداری کرے۔دوپہر ہونے کو آیی۔بھوک بھی لگی تھی۔لیکن میرا ڈبہ شاید کہیں رکھ کر بھول گیا تھا۔اور کافی دور بھی آ گیا تھا۔آج بھی کہیں بات نہیں بنی۔ شام ہونے کو تھی تو میں گھر کی طرف چل پڑا ۔ساتھ ہی ذہن میں بھی مسلسل سوچیں گردش کر رہی تھی ۔ چار جوان بیٹیاں ہیں۔سب کا جہیز بنانا۔ایک کا تو رشتہ بھی پکّا کر دیا تھا۔کچھ ماہ بعد کی تاریخ تھی۔بہت کچھ کرنا باقی تھا۔گھر کی چھت بھی خراب ہو رہی تھی۔اس مہینے میں تھوڑے پیسے بچا کر چھت سہی کرنی تھی تاکہ برسات کے دن آسانی سے نکل جائیں۔بیوی بھی دمہ کی مریضہ تھی۔اس کی دوائیوں کا خرچہ تھا ان سب زمداریوں کے ہوتے تو شاید میں مر بھی نہ پاؤں۔سوچتے سوچتے گلی میں پہنچا۔وہاں کافی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔میں سوچ ہی رہا تھا کہ ضرور کوئی انہونی ہوئی ہے اور اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا۔میں یہ دیکھ کر حیران تھا کہ سب لوگ میرے ہی گھر میں جمع تھے ۔میرا دل ہولنے لگا۔کہیں میرے بیوی یا بچوں کو کچھ تو نہیں ہوا۔یہی سوچتے ہوئے میں تیزی سے اندر کی جانب بڑھا اور سامنے کا منظر دیکھ کر پریشان ہو گیا ۔میرے بیوی بچے کسی نعش کے پاس بلک رہے تھے۔میں نے آگے جا کر چادر چہرے سے ہٹائی۔ تو جیسے پتھر کا ہو گیا۔اور کانوں میں بیوی کی آواز گونجی۔”صبح اچھے بھلے ڈبہ لے کر کام پر گئے تھے۔اور کچھ ہی دیر بعد پتا چلا ۔کسی ٹینکر والے نے
ٹکر مار دی اور ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئے۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے