تاریخ کے دریچوں سے

نعت و منقبت کی تاریخ

تحریر: محمد دلشاد قاسمی

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کو سبب وجود کائنات بنایا۔ اور اس کائنات کی تخلیق کا اصل مقصد آپﷺ سے اظہار محبت اور آپﷺ کے عالی مرتبے کو ظاہر کرنا ہے۔ اور تخلیق کائنات خود اپنے اندر یادِ رسولﷺ لئے ہوئے ہے۔ اللہ نے اپنی تخلیقی شان کے اظہار کے لئے سب سے پہلے اپنے حبیب ﷺ کے نور انور کی تخلیق کی اور بعد میں سب کچھ تخلیق ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدﷺ اور محمدﷺ کہا ہے ۔ احمد کا مطلب ہے بہت تعریف کرنے والا یعنی آپﷺ وہ عظیم انسان ہیں جن سے زیادہ کسی نے اپنے خالق کی تعریف نہیں کی۔ محمد کا مطلب ہے بہت تعریف کیا گیا۔ یعنی آپﷺ وہ بلند پایہ شخصیت ہیں جن سے زیادہ کسی کی تعریف نہیں کی گئی۔ خود اللہ تعالیٰ آپﷺ کا نعت خواں ہے اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جا بجا آپﷺ کی تعریف کی ہے اور آپﷺ کی تعریف کے طور پر آپﷺ پر درود و سلام پڑھنے کی اس طرح تلقین کی گئی کہ

’’ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی یا ایھااللذین آمنو صلو علیہ وسلمو تسلیما‘

 یہ کہنا تو مشکل ہے کہ نعت خوانی کا آغاز کب ہوا تھا لیکن روایات سے پتا چلتا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا ابوطالب نے سب سے پہلے نعت کہی۔ مشہور نعت گو شاعر فصیح الدین سہروردی کے مطابق اولین نعت گو شعرا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا ابوطالب اور اصحاب میں حسان بن ثابت پہلے نعت گو شاعر اور نعت خواں تھے۔ اسی بنا پر اُنہیں شاعرِ دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی کہا جاتا ہے۔ ذیل میں آپکے نعتیہ اشعار ہیں۔

یابکر آمنة المبارک بکرھا ولدتہ محصنة بسعد الاسع
نوراً ضاء علی البریة کلھا من یھد للنور المبارک یھتدی
متی يبد في الداجي البهيم جبينه يلح مثل مصباح الدجي المتوقد

  اسی طرح حضرت حسّان بن ثابتؓ بار گاہ رسالت میں یوں نذرانۂ عقیدت پیش کرکے شاعررسولؐ کے خطاب سے سرفراز ہوئے۔

اَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطّ عَیْنِی

اَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدَ النِّسَاء

خُلِقْتَ مُبرئاً مِنْ کُلَّ عَیْبِِ

کانَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَما تَشَائ
اس کے علاوہ کعب بن زہیر اورعبداللہ ابن رواحہ نے ترنم سے نعتیں پڑھیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود کئی مرتبہ حسان بن ثابت سے نعت سماعت فرمائی۔ حسان بن ثابت کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست ہے، اُن صحابہء کرام کی کہ جنہوں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعتیں لکھیں اور پڑھیں۔
بعض دفعہ تو خود اللہ کے رسول ؐ نے کفار قریش کو ہرزہ سرائی کا جواب دینے کے لیے حسان بن ثابت، عبداللہ بن رواحہ کو جوابی اشعار لکھنے کا حکم دیا جن کا مرکزی نقطہ مدح رسالت ہی ہوتا تھا۔آپؐ نے بعض اوقات مسجد نبوی میں بیٹھ کر اشعار کی سماعت فرمائی اور اچھے اشعار پر اظہار پسندیدگی بھی فرمایا۔بعض اشعار پر آپؐ نے اصلاح بھی فرمائی۔
اسی طرح سے ایک اور جلیل القدر صحابی حضرت کعب بن زہیر بن ابی سلمیٰ ؓ کے ایک طویل قصیدے ’’قصیدہ ٔ بردہ‘‘ کے صرف ایک شعر پر ہزاروں شعر ی مجموعے اور بیاضیں قربان کہ اس شعر پر نبی کریمؐ نے انہیں اپنا پیراہنِ مبارک عطا فرماکر شاعر وشعر دونوں کو حیاتِ جاوداں عطا فرمادی۔ یہ قصیدہ ’’قصیدۂ بردہ : کے نام بھی جاناجاتا ہے اور اس کو (چادر والا قصیدہ) بھی کہاجاتا ہے۔بردہ چادر کو کہتے ہیں ۔ یہ چادر بعد میں امیر معاویہؒ نے بیس ہزار درہم(دینار) کے بدلے میں ان سے لے لی تھی اور اموی حکمراں اسے اپنی مسند نشینی کے وقت بطور تبرک پہنا کرتے تھے۔ بعد میں یہی مبارک چادر عثمانی خلفا تک پہنچی تھی۔اس کا ایک شعر جو نعت کی بہترین مثال ہے۔ ذیل میں وہ شعر درج ہے۔
اِنَّ الرَّسُولَ لَسَیْفٌ یُسْتَضَائُ بِہٖ

مُھَنَّدٌ مِنْ سُیُوفِ اللّٰہِ مَسْلُولُ

اسی طرح جب حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکے سے ہجرت فرما کر مدینے تشریف لائے تو آپ کے استقبال میں انصار کی بچیوں نے دف پر نعت پڑھی، جس کا درج ذیل شعر شہرتِ دوام پاگیا:

طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
و جب الشکر علینا ما دعا للہ داع

   نعتِ رسول دراصل اصناف سخن کی وہ نازک صنف ہے جس میں طبع آزمائی کرتے وقت اقلیم سخن کے تاجدار حضرت مولانا جامیؔ نے فرمایا ہے:

لا یُمکن الثناء کما کان حقّہٗ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اردو زبان میں نعت ان اشعار کے لئے مخصوص ہے جو صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ممدوحہ میں کہے گئے ہوں ۔ عربی میں اس کے لیے’’مدح‘‘ کا لفظ مستعمل ہے۔نظم اور نثر دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
کسی انسان کی خوبیاں اگر اس کی زندگی میں بیان کی جائیں تو اس کو مدح کہتے ہیں اور اگر اس کے مرنے کے بعد اس کے اوصاف ومناقب کا ذکر کیا جائے تو اس کر مرثیہ کہتے ہیں ۔لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اس قاعدے سے مستثنیٰ ہے۔رسول ؐانسان کامل ہیں ۔ وہ بشری صفات کا نہایت اعلیٰ وارفع نمونہ ہیں ۔ ان کی حیات طیبہ کی مثل اعلیٰ اور مکارم اخلاق اسوۂ حسنہ ہیں اُن کی مدح وثناخود قرآن کریم میں جابجا مذکور ہے۔
ياسين والقران المرسلين انك لمن المرسلين انك على صراط مستقيم
طه ما انزلنا عليك القران لتشقى
يا ايها المزمل قم الليل الا قليلا
يا ايها المدثر قم فانذر
انا ارسلناك بالحق بشيرا ونذيرا
انما انت منذر ولكل قوم هاد
وما ارسلناك الا كافه للناس بشيرا ونذيرا
ويعلمهم الكتاب والحكمه
قد جاءكم من الله نور وكتاب مبين
وما كان لمؤمن ولا مؤمنه اذا قضى الله ورسوله امرا ان يكون لهم الخيره
وما ارسلناك الا رحمه للعالمين
النبي اولى بالمؤمنين من انفسهم
ولكن رسول الله وخاتم النبيين
ورفعنا لك ذكرك
قرآن کریم خود آپ کے اخلاق اور سیرت طیبہ کا آئینہ ہے۔ ایسی عظیم المرتبت شخصیت کے اوصاف وکمالات، فضائل وشمائل کا بیان کرنا کسی معمولی کیا غیر معمولی انسان سے بھی ممکن نہیں۔
    
’’نعت گوئی عشقِ رسول اور شوقِ مدینہ ہندوستانی شعرا کا بھی محبوب موضوع رہا ہے اور فارسی شاعری کے بعد سب سے بہتر اور سب سے مؤثر نعتیں اردو ہی میں ملتی ہیں ۔
ویسے تو اردو میں باقاعدہ نعت گوئی کا آغاز سولھویں اور سترھیوں صدی میں ہواجب اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعرسلطان محمد قلی قطب شاہ (۱۵۶۵ئ-۱۶۱۱)نے نعت کی مستقل حیثیت قائم کی۔ ان کے کلیات میں عیدمیلاد النبی پر چھ، بعثت نبی پر پانچ، شب معراج پر ایک نظم اور پانچ نعتیہ غزلیں اور نعتیہ رباعیاں ملتی ہیں ۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں ولیؔ دکنی کا نعتیہ کلام اردو نعت کے ارتقائی سفر میں یک نئی منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔ولیؔ کے معاصرین میں قاضی محمود بحریؔنے اپنی صوفیانیہ شاعری کی بدولت شہرت حاصل کی ہیں ۔
     خواجہ الطاف حسین حالیؔ اردو شاعری کے دورِ جدید کے اہم نعت گوشاعر ہیں جن سے اردو میں نعت گوئی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ حالیؔ کا نعتیہ کلام مقدار میں بہت کم ہے لیکن معیارمیں بہت اعلیٰ وارفع ہے دور جدید میں اردو نعت میں آج تک جتنی نظم کہی گئی ہو یا نثر حالیؔ کی نعت کا جواب نہیں ۔ایک سے ایک سحر طراز آئے لیکن حالیؔ سے آگے نہ بڑھ سکے نہ روگرداں ہو سکے بلکہ مستفید سبھی ہو ئے ‘‘ ۔ اس کے ثبوت میں ہم حالیؔ کے بیشتر کلام کوپیش کر سکتے ہیں ۔ جس میں سر فہرست ’’مدوجذر اسلام‘‘ہے ۔
وہؐ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
اُتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیاء ساتھ لایا
ان کے علاوہ جن شعرء نے اس فن میں طبع آزمائی کی یا کر رہے ہیں ان میں مشہور اور مقبول عام امیر مینائی، ،جگر مرادآبادی، اقبال سہیل، ؔ حفیظ جالندھری، ماہرالقادری، حمید صدیقی، نشور واحدی، ثانی حسنی، عامر عثمانی، تسنیم فاروقی،جلیل مانک پوری،رئیس نعمانی،سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی،امجد حیدرآبادی، ظفر علی خان علیگ، ہمسر قادری،مظفر وارثی، اعجاز رحمانی، ابوالمجاہد، فضا ابن فیضی، ساجد صدیقی، تابش مہدی، افسر امروہوی اور ابرار کرتپوری اورحالیہ دور کے جانے مانے شاعرڈاکٹر ماجدؔ دیوبندی کا نام خاص طور سے لیا جاسکتا ہے۔ماجد دیوبندی کا نعتیہ کلام ’’ذکر رسولؐ‘‘ہر خاص وعام میں مقبول ہے۔ ان کا مشہور نعتیہ شعر:

ذکر رسولؐ کر نہیں سکتے زبان سے

توفیق جب تلک نہ ملے آسمان سے

کا اگرماہرغزلیات جگر مرادآبادی کے مشہورنعتیہ شعر سے موازنہ کیا جائے توکافی حد تک دونوں میں مطابقت نظرآتی ہے۔

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں

پیغام محبت عام سہی، عرفان محبت عام نہیں

یہاں میں ایک بات یہ بتادوں کہ مدح رسول اور مدح شاہ میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ کے مدّاح کو دین ودنیا دونوں کی نعمتوں سے سرفراز کیا جاتا ہے جبکہ مدح شاہ کو صرف دنیاوی نعمت ہی میسر آتی ہے ۔
تاریخ کے اوراق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺکی مد ح وسرائی میں مسلم شعرا ء کی طرح غیر مسلم شعراء نے بھی اپنی الفت ومحبت کا نذرانہ پیش کرتے ہوئےآپ ﷺ کی شان میں نعتیہ اشعار قلم بند کیے۔سب سے پہلا غیر مسلم نعت گو اعبثی میمون بن قیس تھا۔
غیر مسلم شعرا نے اللہ کے رسول کی مدت میں کتنی نعتیں لکھی ہے اس کو جاننے کے لئے ہمیں احمد میرٹھی کی کتاب ’’بہر زماں بہر زباں‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس میں تین سو سے زائد غیر مسلم شعراء کی نعتیہ شاعری کا تعارف و تذکرہ پیش کیا گیا ہے۔‘‘ غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی کا آغاز سب سے پہلے جنوبی ہند میں ہوا لیکن حقیقی دور 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد شروع ہوا : سب سے پہلے غیر مسلم نعت گو شاعر منشی شنکر لال ساقی(متوفی 1890ء) ہیں۔ انہوں نے فارسی اور اردو دونوں زبان دونوں میں اشعارکہے ہیں۔
جی روضہء اقدس کو نہ آنکھوں نے دیکھا
روح جنت میں بھی ہو گی تو ترستی ہو گی
نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے
کیا مری ان کے مدح خوانوں میں ہستی ہو گی

اس کے بعد منشی درگا سہائے سرور جہاں آبادی (المتوفی1910ء) بھی نعت گوئی کی دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں۔

دلِ بے تاب کو سینے سے لگالے آ جا
کہ سنبھلتا نہیں کم بخت سنبھالے آ جا

تلوک چند محروم نے بھی آپ ﷺ سے اپنی وابستگی کا اظہار کیاہے شعر دیکھیں:

مبارک پیشوا جس کی ہے شفقت دوست دشمن پر
مبارک پیش رو جس کا ہے سینہ صاف کینے سے۔

پیارے لال رونق(المتوفی 1915ء) بھی نعت گوئی کے میدان میں اہم مقام رکھتے ہیں۔

تو ہے محبوب، خدا چاہنے والا تیرا
مرتبہ سارے رسولوں سے ہے بالا تیرا
کلمہء صلِ علیٰ وردِ زباں رکھتا ہوں
خواب میں دیکھ لیا ہے قد بالا تیرا

عصر حاضر میں غیر مسلم ہندو شعراء میں کنور مہندر سنگھ بیدی کا نام ایوان ِ نعت گوئی میں منفرد حیثیت کا حامل ہے۔

ہم کسی دین سے ہوں صاحبِ کردار تو ہیں

جیسے بھی ہیں ثنا خوانِ شہہِ ابرار تو ہیں

عشق ہو جائے کسی سے کو ئی چارہ تو نہیں ہے

صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں ہے

المختصر نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ اور اخلاق حسنہ سے متاثر ہوکر بلا تفریق مذہب وملت مسلم اور غیر مسلم شعراء بارگاہ رسالت مآب ﷺمیں اپنی عقیدت ومحبت کا نذرانہ پیش کرتے ہوے اور نبی پاک کی ذات اقدس سے والہانہ وابستگی کا اظہار کرتے ہوے نظر آتے ہیں۔

جدید دور کے کچھ مشہور شعراء جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فلم کی ذات مقدسہ میں نذرانہ عقیدت حضرت پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
حضرت امداد اللہ مہاجر مکی، قاسم نانوتوی، اسماعیل شہید، حفیظ جالندھری ،حفیظ ہوشیار پوری، اشرف علی تھانوی،ماہر القادی،علی افسر،رضا بریلوی، سیماب اکبر آبادی،قمر رام نگری، میرمجروح ،حسن نظامی ، مومن، فانی، محمد علی جوہر ؔ یعقوب حسین، شورش کاشمیری، عبد القدیر صدیقی حسرت، مرزا شکور بیگ ، امجد حیدرآبادی ، ابوالعلائی ،ظفر علی خان،بہزاد لکھنوی، کامل شطّاری،معز ملتانی،اعظم علی صوفی، اوج یعقو بی ، خواجہ شوق ، صبیح رحمانی ،ریاض مجید،اشاد عظیم آبادی ،ضیاء القادری، اصغرگونڈوی، شبلی نعمانی، مجاز، زائر حرم حمیدلکھنوی،انور صابری، آرزو لکھنوی،عبدالرحمن بجنوری، جمیل الدین عالی، حسن رضا ، حسرت موہانی، جذبی، اقبال سہیل، نعیم صدیقی،محوی صدیقی،ندیم قاسمی،خالد بزمی ، عاصی کرنالی ، بیکل اتساہی، زکی کیفی، محشررسول، راجا رشیدمحمود،جمیل قادری، ریاض حسین چودہری ، جعفر بلوچ، کشفی، محسن نقوی ، عزیز خالد،آفتاب کریمی،اکرم رضا،احسان دانش وغیرہ ہیں ۔
ابھی بلکل قریب کے شاعروں میں سے راحت اندوری صاحب کے کچھ نعتیہ اشعار بھی بہت مشہور ہوئے۔ ان میں سے ایک مشہور شعر یہ ہے ۔

زمزم کوثر و تسنیم نہیں لکھ سکتا

یا نبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا

میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت

تو آپ کے نام کی ایک نیم نہیں لکھ سکتا

     نعتیہ شاعری میں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ نعت گوئی نہ صرف شعرو سخن کی آزمائش ہوتی ہے بلکہ اس کسوٹی پر عقیدۂ توحیدورسالت اور عشق حقیقی کی پرکھ بھی بدرجہ اتم ہوتی ہے، اس لیے اربابِ سخن نعتیہ شاعری کو دو دھاری تلوار سے تشبیہ دیتے ہیں کہ اگر اس میں ذرا بھی ترمیم وتنسیخ یا افراط وتفریط کا شائبہ ہوگیا تو سامان بخشش بننے کے بجائے طوق کفر وضلالت بھی بن سکتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے