متفرقات

کرونا وائرس سے زیادہ خطرناک جہیز کا وائرس ہے: قاضی مطیع الرحمٰن قاسمی

میرابھائندر میں اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں منعقدہ میٹینگ میں علماء اکرام کی پرجوش شرکت

16 مارچ: میراروڈ میں مسلم معاشرے میں خرابیوں کے سدّباب کے لئے دارالقضاء فاؤنڈیشن میرا بھائندر کے زیرِ اہتمام مسجد بلال سیکٹر 11 شانتی نگر میراروڈ میں بعد نمازِ فجر ایک نشست منعقد ہوئی ،جس میں قرب و جوار کی تمام مساجد کے ائمہ اکرام ،علماء دین ،دینی جماعتوں کے نمائندوں کے علاؤہ علاقے کے سرکردہ سماجی شخصیات نے بھی شرکت کی۔ نشست کا آغاز ہادی مسجد کے امام قاری شیر علی کی تلاوت قرآن مجید کے ذریعے ہوا۔ علماء اکرام کی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مقرر کردہ بھیونڈی اور میراروڈ کے مشترکہ قاضی شہر قاضی مطیع الرحمٰن قاسمی صاحب نے کہا کہ حالانکہ کئی مسلم لڑکیوں نے اس سے قبل خودکشی کی ہے مگر عائشہ مکرانی کا واقعہ دل کو دہلا دینے والا ہے ۔ اس وقت ہندوستان میں اس سے بڑا کوئی کام نہیں ہے کہ مسلم معاشرے کی اصلاح پر فوری طور توجہ دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ آج کرونا وائرس سے بڑا وائرس جہیز کا وائرس ہے ۔ انہوں نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر کوئی اپنے اپنے حلقۂ اثر میں کوششیں شروع کردیں۔ نکاح کے وقت ہی ازدواجی زندگی پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے ۔میاں بیوی کے حقوق بیان کئے جائیں۔ جہاں جبری لین دین ہورہا ہو وہاں نکاح نہ پڑھائیں۔ معاشرے کے سرکردہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات پر نظر رکھیں کہ کہیں کوئی غیر شرعی کام یا لین دین ہو رہا ہو تو اسے روکنے کی کوشش کریں ۔انہوں نے کہا کہ ہم تصوّر کریں کہ وہ باپ کتنا مجبور ہوگا جو جہیز کے لئے اپنا مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو۔لوگ جہیز دینے کے لئے حرام طریقے سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں سود پر قرض حاصل کر رہے ہیں ۔قاضی صاحب نے حالات کی سنگینی کا احساس کراتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس دارالقضاء میں ایسے معاملات آتے ہیں کہ ہمیں خون کے آنسو رونا پڑتا ہے ۔ جلسہ کے ناظم مولانا عبداللہ اصلاحی غازی پوری نے افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں مسلم معاشرے میں جو مسائل و مشکلات بالخصوص خاندان کا اندرونی ماحول ،ازدواجی مسائل،عائلی نظام کا شیرازہ بکھرنے جیسے بڑے مسائل سامنے آ رہے ہیں۔ہم اپنے علاقے میں ان واقعات کے ازالے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔ سماج میں آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سماجی بہبود کے لئے آپ کے مشورے بیش قیمت سرمایہ ہیں۔انہوں نے خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے وطن میں ہر چار منٹ میں ایک لڑکی جہیز کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے ۔ حالانکہ مسلم معاشرے میں اصلاحی تحرکات چل رہی ہیں مگر اس کے باوجود لالچی لوگوں کی کمی نہیں ہے اور جہیز کی رسم ختم نہیں ہو رہی ہے ۔ انہوں نے علماء اکرام کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں سماج پر اپنے کردار سے اثر انداز ہونا ہے ،جس طرح اولیائے کرام رحمۃ اللّٰہ علیہ سماج کی اصلاح کرتے تھے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اصلاح معاشرہ کا بیڑا اٹھائیں۔
شیعہ حیدری جامع مسجد کے خطیب و امام مولانا سید حسن امام نے عائشہ خودکشی واقع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات کا قصوروار سماج بھی ہے ۔ ہمیں اپنے گھر اور خاندان سے اصلاح کی کوشش شروع کرنی چاہیے کیونکہ گھر کا سربراہ ہی گھر میں موثر رول ادا کرسکتا ہے ۔ مولانا محمد حسین صاحب نے مشورہ دیا کہ نکاح پڑھانے سے پہلے تحقیق کرلی جائے کہ کہیں لین دین تو نہیں ہورہا ہے اور اگر کچھ ایسا ہو تو نکاح کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ سیکٹر گیارہ کی مسجد کے ٹرسٹی جناب محسن صاحب نے کہا کہ جمعہ کے بیانات میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالنا چاہیے ۔ مفتی نذیر صاحب نے کہا کہ بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دینا چاہیے۔ عبدلعظیم صاحب نے کہا کہ اجتماعی نکاح کو رواج دیا جائے تاکہ جس کی استعداد نہ ہو اس کا بھی نکاح ممکن ہو ۔ جمعیتہ العلماء کے صدر مولانا زکریا نے کہا کہ مساجد میں خطبوں کے ساتھ ساتھ ہمیں سوسائٹیوں میں جاکر اصلاحی پروگرام کرنے چاہیے ۔ سمفونی مسجد کے امام عبیداللہ صاحب نے کہا کہ شادیوں میں ہونے والی فضول خرچی پر بھی روک لگنا چاہیے ۔ میٹینگ میں بلال مسجد کے ٹرسٹی ولی بھائی،جمال ٹورس کے مالک ظفر جمال اور دیگر نے بھی اپنے خیالات رکھے۔ آخر میں دارالقضاء فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر عظیم الدین صاحب نے کہا یہ نشست صرف آمدن ،نششستن ،گفتن اور برخاستن نہ ہو بلکہ ہمیں اصلاح معاشرہ کے لئے کمر کس لینا چاہیے ۔ نشست کا اختتام مولانا صفیان اظہری صاحب کی دعا پر ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے