از۔محبوب رضوی علیمی
امرڈوبھا سنت کبیر نگر
حضور مفتی احمد یار خان نعیمی اپنی کتاب جاءالحق میں تحریر فرماتے ہیں کہ”عرس” کے لغوی معنیٰ شادی کے ہیں،اسی لیے دولہا اور دلہن کو عروس کہتے ہیں،بزرگان دین کی تاریخ وفات کو "عرس "اس لیے کہتے ہیں کہ مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر میں ہے کہ جب نکیریں میت کا امتحان لیتے ہیں اور جب وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں نم كنومة العروس الذى لا يوقظه الا احب اهله”
جب بندہ قبر میں مکمل جواب دے دیتا ہے،تو حکم ہوتا ہے کہ سوجا جیسے عروس یعنی دولہا سوتا ہے، چونکہ اللہ کے نیک اور متقی بندوں کو قبر میں اللہ کے فضل سے خوشی ہی خوشی رہتی ہے، اس لیے اولياے کرام كے روز وفات کو "عرس” کہا جاتا ہے، جس کی تائید حدیث شریف سے ہو رہی ہے۔
علامہ نعیم الدین مرادآبادی فرماتے ہیں کہ”بزرگان دین کے مزارات اور ان کے وفات کے دن زیارت، حصول برکت اور ایصال ثواب کے لئے سالانہ حاضر ہونے کو عرس کہتے ہیں”
حضرت ابن ابی شیبہ سے روایت ہے کہ ان النبى كان ياتى قبور الشهداء باحد على راس كل حول فيقول السلام عليكم بما صبرتم فنعم عقبى الدار
اس حدیث سے یہ امر بالکل واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر سال شہدائے کرام کی قبروں پر تشریف لے جاتے تھے،ٹھیک اسی طرح مسلمان ہر سال بزرگان دین کے مزارات پر حاضر ہوتے ہیں اور فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں، لہٰذا یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔
ان تمام امور سے یہ بات واضح ہو گئی کہ "عرس” ایک مقدس عمل ہے،جو خیر و برکت کا ذریعہ ہے۔
اسی لیے "عرس”میں کسی بھی ناجائز اور غیر شرعی امر کا ارتكاب بلا شبہ جرم عظیم اور قابل گرفت ہے، لیکن بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج لوگوں نے عرس کے نام پر عجیب و غریب رسمیں ایجاد کر لی ہیں،اور طرح طرح کے غیر شرعی امور کا ارتکاب کر بیٹھے ہیں،جس سے مخالفین اہل سنت والجماعت کو انگشت نمائی کا موقع میسر ہوتا ہے، اور اس امر کے ارتکاب کرنے والوں کو مورد الزام نہ ٹھرا کر امام اہلسنت اعلیٰحضرت پر طعن و تشنیع کرتے ہیں کہ اعلی حضرت نے ہی ان بدعات کو فروغ دیا ہے،مگر آئے دیکھتے ہیں کہ ان غیر شرعی رسومات کے متعلق امام اہلسنت کا مؤقف کیا ہے؟
بعض لوگ جب کسی بزرگ کے آستانے پر حاضری دیتے ہیں تو جانے یا انجانے میں قبر کا سجدہ کر لیتے ہیں۔
سجدہ بھی ایک عظیم الشان عمل ہے،جو اللہ کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں، چاہے سجدہ تعظیمی ہو یا سجدہ تعبدی دونوں حرام ہے بلکہ اگر غیر اللہ کو بہ نیت عبادت سجدہ کیا تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
لو كنت آمراحدا ان يسجد لاحد لامرت المرأة ان تسجد لزوجها
اگر میں کس کو کسی مخلوق کے سجدہ کرنے کہ حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔
امام اہلسنت فرماتے ہیں کہ روضه انور کا نہ ہی طواف کرو اور نا ہی سجدہ کرو اور نا ہی اتنا جھکو کی رُکوع کے برابر ہو جائے۔(فتویٰ رضویہ شریف)
عصر حاضر میں بہت سارے مقامات پر عریانیت کا بازار گرم ہے،مجھے یہ تحریر کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ بعض مقدس مقامات اور مزارات بھی انہی حرکات میں ملوث ہیں، ان غلط کاموں اور برائیوں کو بڑاھنے میں عورتوں کا ہجوم اور اُن کا مردوں کے بیچ انا پیٹرول سے کم کام نہیں کرتا، ان تمام امور کا احساس ہر سنجیدہ اور پڑھے لکھے طبقے کو ضرور ہو رہا ہوگا، مگر اصلاح کرے کون؟ان کی خود اصلاح ہو جائیگی!
ایسے حالات میں کیا عورتوں کو مزارات پر شرکت کی اجازت ہو سکتی ہے
جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "ان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لعن زوارات القبور
اللہ کے رسول نے لعنت فرمائی اُن عورتوں پر جو مزارات پر حاضری دیتی ہیں۔
اللہ کے برگزیدہ بندوں کی مقدس مزارات پر چادر پوشی بھی یقیناً جائز و مستحسن ہے،اس امر کا قطعی انکار نہیں، لیکن جس طرح چادر پوشی کا عموماً رواج ہے وہ یقینا درست نہیں، جس طریقے سے غیر مسلم اپنے رسومات میں ناچتے گاتے ڈھول باجے کے ساتھ اپنی مورتی کی آخری رسم ادا کرنے کے لئے جلوس کی ایک شکل نکالتے ہیں، بالکل اسی کی مشابہت رکھتے ہوئے اعراس میں بھی ہو رہا ہے (الا ما شاء اللہ)آخر ہم کیوں شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسرے قوم کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے "من تشبہ بقوم فہوا منھم”
جو جس قوم سے مشابہت رکھتا ہے وہ اسی میں سے ہے۔ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے تارک ہوکر صاحب مزار سے فیض پانے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں،یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے،
"امام اہلسنت سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو جواب دیا کہ جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہو کہ بدلنے کی حاجت ہو تو چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اللہ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں(احکام شریعت)
امام اہلسنت نے تو تو شریعت کے حدود میں رہکر عرس منانے کہ حکم دیا ہے،اگر اس کے بر عکس کوئی کام کرتا ہے تو یہ امام اہلسنت کی تعلیمات نہیں،
مروجہ اعراس میں غیر شرعی رسومات کو ترجیح دیکر اور شریعت کے اصول و ضوابط کو ترک کرکے جہاں ایسے عرس منعقد ہوتے ہیں، تو ایسے عرس کا خدا ہی نگہباں ہے۔
ہم بزرگوں کے اعراس اس لئے مناتے ہیں کہ ان کو اللہ رب العزت کا قرب حاصل ہے،تو انکی قربت کی بنا ہمیں بھی اللہ کا قرب حاصل ہو جائیگا اور یہ ہمارے لیے بخشش کا سبب ہو سکتا ہے،تو اولیاء سے محبت کی بنا ہم عرس کی تقریبات کرتے ہیں، مگر محبت کا تقاضہ تو یہ ہے "ان المحب لمن یحب مطیع”
انسان جس سے محبت کرتا اس کا فرمانبردارہوتا ہے،اب اولیاء کاملین سے محبت کا تقاضہ تو یہ ہے کی اُن کے اقوال افعال پر عمل کیا جائے،اس نقطے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اپنا محاسبہ کریں ہمیں اولیاءکاملین سے محبت ہے یہ اندھی تقلید۔
بالآخر اراکین اعراس سے مہذبانہ انداز میں ایک درد دل رکھتے ہوئے گذارش پیش کرتا ہوں کہ خدارا شریعت کے خلاف ہونے والے تمام رسومات پر سختی سے روک لگائی جائے، اگر آپ اس فعل حسن میں متحرک و فعال ہوگئے تو میرا یقین ہے کہ عرس "عرس”کی طرح ہوگا، شریعت کے حدود میں ہوگا۔
کیوں کہ آپ کے سامنے خانقاہ برکاتیہ، خانقاہ بریلی اور الجامعہ الاشرفیہ کے اعراس ایک عظیم مثال کی حیثیث کے حامل ہیں، اگر آپ متحرک ہو گئے تو آپ کے ذریعے اہلسنت والجماعت پر اُنگلیاں اٹھانے والے دیابنہ وہابیہ کے سر خم ہو جائینگے، کیوں کی عموماً عرس کی خرافات ہی کی وجہ سے وہ ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیا یہی مسلک اعلیٰ حضرت کی پہچان ہے؟ جہاں غیر اللہ کو سجدہ کیا جاتا ہے،جہاں چادر پوشی کے نام پر شریعت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے،جہاں پر ہماری مائیں اور بہنیں مزارات پر حاضر ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے متضاد عمل کرتے ہیں، قوم مسلم کے نوجوان تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ سپاہی ہیں جس کی وجہ سے اسلام کی سر بلندی ہوتی ہے، اسلامی تاریخ روشن و تابناک ہوتی ہے، ایک جزی اعتبار سے قوم کی مستورات کی عزت و آبرو آپ کے سپرد ہے،آپ اُنہی شیاطین کے مکر و فریب سے نجات دلا سکتے ہیں، آپ ہی تھے جب میدان عمل و جہاد میں ہوتے تو کفار و مشرکین کے پیروں تلے زمین کھسک جاتی تھی اور لوگوں کو یہ کہنا پڑتا تھا،
"دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے”
کل وہ تھے جو شریعت کے حدود میں رھکر وہ نمایاں کارنامہ انجام دیا کہ تاریخ کے صفحات ان کے کارناموں سے مزین ہیں، ایک ہم ہیں جو فرائض و واجبات اور شریعت کے اصول و ضوابط کو ترک کرکے محض مستحبات کے عامل ہیں،جہل و غباوت کے اس دلدل سے اپنے آپ کو منزہ کرکے شریعت کی پاسداری میں مصروف عمل ہو جائیں،ورنہ مستقبل میں تاریکی اور ذلت و رسوای کے سوا کچھ میسر نہ ہوگا ۔