تحریر: صدیقی محمد اویس، نالا سوپارہ
گزشتہ برس ان ہی دنوں پوری دنیا اور بالخصوص ہمارا ملک ہندوستان کورونا وبا کے سبب لاک ڈاؤن کے نذر ہوا تھا جس کے منفی اثرات سے عوام آج بھی دو چار ہے۔ 22 مارچ 2020 کو پہلی دفعہ مرکزی حکومت کے ذریعے ملک بھر میں ایک دن کا جنتا کرفیو لگایا گیا تھا، جس کے بعد 21 دن، 40 دن اسطرح سے اچانک ایک ہی دم میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لاک ڈاؤن کے دوران متوسط طبقے کے لوگ، غریب مزدور اور ملک کی عوام کو طرح طرح کی دشواریوں سے گزرنا پڑا، محض حکومت کی غیر ذمہ داری کے سبب، ایک طرف عوام کے مابین وبا کا خوف تھا تو دوسری جانب بے روزگاری کا سمندر، ایک جانب کنبے کا پیٹ پالنے کا ڈر تھا تو دوسری طرف ملک بھر کے سینکڑوں مزدوری کی موت۔ کہیں لوگ وبا کا شکار تھے تو کہیں روزگار اور بھوک مری کے ڈر سے خودکشی کرنے پر مجبور اور ان تمام مسائل کی سیدھی ذمہ داری ہماری حکومت پر تھی جسے ادا کرنے میں وہ مکمل طور پر ناکام تھی اور ہے۔ ان دنوں لاک ڈاؤن اور کورونا وبا کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے اور حالات اب بھی مستحکم نہیں ہیں، ایسے میں ہمارے میڈیا کو حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے تھا کہ آخر متعدد بار لاک ڈاؤن لگانے بعد بھی حالات درست کیوں نہیں ہیں ؟ لیکن ہمارا میڈیا کو تبلیغی جماعت، شاہین باغ مظاہرے، پاکستان اور اب کسان آندولن میں خالصتان جیسے مدعوں سے فرصت ہو تب وہ عوام کے متعلق سوچے !
لاک ڈاؤن سے پہلے لاک ڈاؤن کے دوران اور اب لاک ڈاؤن بھی عوام کے حالات میں رتّی بھر کا فرق نہیں ہے، بلکہ حالات بد بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت لاک ڈاؤن کا استعمال کرکے اپنے ایجنڈے پورے کر رہی تھی اور اب بھی کر رہی ہے، پھر چاہے وہ دہلی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اور دیگر بے قصور طلباء و سماجی کارکنان کی غیر قانونی گرفتاریاں ہو یا پھر زرعی قانون، سرکاری کمپنیوں کی نجکاری Privatisation ہو یا پھر لو جہاد قانون کے تحت ایک مخصوص مذہب کو نشانہ بنا کر فرقہ وارانہ منافرت کو عام کرنا ہو، اور بھی نہ جانے کیا کیا، حکومت کے ان تمام ناپاک اقدامات سے صاف ظاہر ہے کہ عوام ہر عمل میں محض ایک مہرہ ہے جسے نا پہلے بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہمیں بچپن سے آج تک پڑھایا جاتا رہا ہے کہ جمہوریت یعنی حکومت رعایا کی، رعایا کے ذریعے، رعایا کے لئے۔ لیکن عملی میدان معاملہ اسکے برعکس نظر آتا ہے، لاک ڈاؤن کے دوران حکومت کی جانب سے کوئی مخصوص رعایات و سہولیات فراہم نہیں کی گئیں تھیں اور اب جب ملک بھر میں لاک ڈاؤن نہیں ہے، رفتہ رفتہ تمام شعبے تمام کاروبار پٹری پر آ رہے ہیں تب بھی حکومت کی طرف سے کوئی خاص اقدام نہیں ہے۔ ملک کی معیشت کورونا وبا سے قبل ہی اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی جسکا حال اب یہ ہے کہ ملک بھر میں غیر اعلانیہ معاشی ایمرجنسی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیوں کو تالے لگ چکے ہیں، لاکھوں لوگ بے روزگار پھر رہے ہیں، بازار میں سبزی فروش کی جگہ اب تعلیم یافتہ نوجوان پھل فروٹ اور پکوڑے کی ریڑی لگاتا نظر آ رہے ہیں، غریب انسان جو بہت محدود کرائے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کر سکتا تھا اب ٹکٹ کا کرایہ سن کر اپنا سا منہ لے کر بیٹھ جاتا ہے۔ غریب تو غریب ایک متوسط طبقے کا مسافر بھی ریلوے کے آسمان چھوتے کرائے سے پریشان ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد جب ہر شعبہ مدھم رفتار سے اپنی راہ پر گامزن ہے تو ریلوے کیوں نہیں ؟ یہ حکومت کی چاپلوسی ہے کہ ملک بھر احتیاطی تدابیر کا خیال رکھتے ہوئے پیسنجر ٹرینیں پہلی طرح باقاعدگی سے چلانے کے بجائے خصوصی ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔ جن میں جنرل ڈبہ ہٹا دیا گیا ہے اور سیکنڈ کلاس کا کرایہ فرسٹ کلاس کے مترادف ہے تو گمان کریں ذرا کہ ایسے میں نقصان کس کا اور فائدہ کس کا ؟ یعنی حکومت ہر طرف سے عوام کو لوٹ رہی ہے۔ یہ تو رہا ریلوے سوال۔۔۔ اب تعلیم پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ اسکولوں، کالجوں اور تعلیمی اداروں نے الگ قہر ڈھایا ہوا ہے، والدین اور خاندان کو مشکل سے دو وقت کی روٹی میسر ہے، آمدنی کا مسئلہ ہے لیکن اسکول اور تعلیمی ادارے فیس کا مطالبہ کر رہے ہیں اور فیس ادا نہ کرنے پر بچوں کو نہ اسکول سے نکالنے تک کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، حالانکہ کئی ریاستوں میں ریاستی حکومتوں کے ذریعے فیس میں رعایت اور قسطوں میں ادا کرنے متعلق سرکیولر جاری کئے گئے تھے باوجود اسکے ادارے اپنی بضد ہیں۔ ایسے میں عوام کیا کرے ؟ کیا بچوں کی تعلیم پر بھی روک لگا دی جائے گی ؟ پھر بینک کا شعبہ دیکھیں جہاں مقروض سے انٹرسٹ اور اضافی چارجز کے نام من مانے پیسے لے کر انہیں لوٹا جا رہا ہے اور مذید اذیتوں میں جھونکا جا رہا ہے۔ یہ تو محض کچھ مسائل ہیں جن سے ملک کی عوام دوچار ہے لاک ڈاؤن سے پہلے بھی اور لاک ڈاؤن کے بعد بھی۔ اب آخر عام آدمی کیا کھائے ؟ اپنے بچوں کو کیا تعلیم و تربیت دے ؟ ان سبھی پریشانیوں کے نتیجے میں لوگ ذہنی دباؤ اور اضطرابی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں اور خودکشی جیسے غلط قدم اٹھاتے ہیں۔
مسائل کا حل نکالنا ضروی ہے۔ عوام کو چاہئے کہ بیدار ہوں اپنے حقوق کو لے کر۔ حکومت سے مطالبہ کریں، کیونکہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے شہری ہیں اور ہمیں ہمارا حق ملنا ہی چاہیے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ عوام کے لئے کام کریں نہ کہ عوام مخالف۔