ازقلم: محمد مقتدر اشرف فریدی، اتر دیناج پور(بنگال)
اللہ عزّ و جلّ کا بے پایاں فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں کچھ ایسی مخصوص راتیں عطا فرمائیں ہے جو سال کے دیگر راتوں کی بنسبت افضلیّت کا درجہ رکھتیں ہیں کہ ان راتوں میں رحمت و انوار کی موسلا دھار بارشیں نازل ہوتیں ہیں، مغفرت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دعا کی قبولیت کا پروانہ عطا کیا جاتا ہے، انھیں راتوں میں پندرہویں شعبان کی مقدس و متبرّک رات "شب برأت” بھی ہے-
امّتِ محمدیہ پر اللہ عزّ و جلّ کا یہ کرم خاص ہے کہ اس نے شب برأت جیسی نورانی رات سے سرفراز فرمایا- یہ متبرّک رات ہر سال آتی ہے اور چلی جاتی ہے لیکن کتنے غافل ایسے ہیں جو اس کی قدر نہیں کرتے اور سو کر پوری رات گزار دیتے ہیں- اس مقدّس رات کو اللہ عزّ و جلّ نے برکات و حسنات کا ذریعہ بنا یا ہے لیکن حیف صد ہزار حیف کہ کتنے ایسے غافل ہیں جو اس رات کو لہو و لعب میں گزار دیتے ہیں، ہاں! بڑے خوش نصیب ہیں وہ جو اس رحمت بھری رات کو موقع غیمت جانتے ہیں اور پوری رات اللہ کی عبادت و اطاعت میں گزارتے ہیں اور اللہ کریم کو یاد کرتے ہیں، اپنے گناہوں پہ نادم و پشیمان ہو کر توبہ و استغفار کرتے ہیں، نوافل کی کثرت کرتے ہیں، قضا نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں، درود شریف، کلمات خیر اور اذکار و ادعیہ میں یہ رات گزارتے ہیں-
حدیث شریف میں ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم ارشاد فرماتے ہیں: جب شعبان کی پندرہویں رات آجائے تو اس رات قیام کرو(یعنی نماز و عبادت میں گزارو)
اور اس کے دن میں روزہ رکھو کہ اللہ عزّ و جلّ غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر خاص تجلّی فرما تا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ:
ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ بخش دوں
ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں
ہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ اسے عافیت دوں،
ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا
اور یہ اس وقت تک فرماتا ہے کہ فجر طلوع ہو جائے-
پندرہویں شعبان کی شب ہمارے لئے برکات و حسنات کا باعث ہے لہذا یہ متبرّک رات ہمیں عبادت میں گزارنی چاہیے- اپنے گناہوں پہ نادم و شرمندہ ہو کر توبہ استغفار کریں، اور اس مقدّس رات میں خاص طور سے قضا نمازوں کا اہتمام کریں، یہ ثواب نفل نمازوں سے بہت زیادہ ہے کہ فرض کا ثواب نفل سے زیادہ ہوتا ہے، اس صورت میں اللہ کا فریضہ ادا ہو جائے گا-
فتاوی عالم گیری میں ہے:
والاِشتغال بالفوائتِ اولٰی و اھمُّ من النوافلِ الا السنن المعروفة(جلد ١، صفحہ نمبر: ١۲٥)
بہار شریعت میں ہے:
قضا نمازیں نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نوافل پڑھتا ہے انہیں چھوڑ کر ان کے بدلے قضائیں پڑھے کہ بری الذمہ ہو جائے البتہ تراویح اور بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ کی نہ چھوڑیں-(جلد ١، صفحہ نمبر: ٧۰٦)