ازقلم: مدثر جمال رفاعی تونسوی، پاکستان
محمد عبد اللہ قریشی مدیر ادبی دنیا ، لاہور ، حکم رفاعیہ کے اردو ترجمے کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ :
علامہ اقبال علیہ الرحمۃ جب مثنوی اسرار و رموز لکھ رہے تھے ، تو یہ کتاب (الحکم الرفاعیۃ) خاص طور پر ان کے زیرِ مطالعہ تھی ۔
انہوں نے شیخ احمد کبیر رفاعی اور ان کی تعلیمات کے متعلق "رموزِ بے خودی” میں مندرجہ ذیل اشعار کہے ہیں:
شیخ احمد سیدِ گردوں جناب
کاسبِ نور از ضمیرش آفتاب
گُل کہ می پوشد مزارِ پاکِ اُو
لا اِلہ گویاں دمد از خاکِ اّو
با مریدے گفت اے جانِ پدر
از خیالاتِ عجم باید حذر
زانکہ فکرش گرچہ از گردوں گُذشت
از حدِ دینِ نبی بیروں گُذشت
اے برادر ایں نصیحت گوش کُن
پند آں آقائے ملت گوش کُن
قلب را زیں حرفِ حق گرداں قوی
با عرب در ساز تا مُسلم شوی
اردو مفہوم:
شیخ احمد رفاعی ایک بلند پایہ سید ہیں ، سورج بھی ان کے ضمیر سے نور حاصل کرتا ہے ، انہوں نے اپنے ایک مرید سے کہا ”اے بیٹا! تجھے عجم کے خیالات (غیر اسلامی افکار و نظریات) سے دور رہنا چاہیے ۔
اگر چہ عجمیوں کے خیالات آسمان سے بھی آگے چلے گئے ہیں لیکن وہ نبی کریم ﷺ کے دین کی حدود میں نہیں رہے ۔
اے بھائی ! تو اس نصیحت پر دھیان دے اور ملت اسلامیہ کے آقا ﷺ کی نصیحت کو ہرگز نہ بھول ۔
تو اپنے دل کو اس سچی بات سے مضبوط بنا اور صحیح مسلمان ہونے کے لیے عرب (یعنی سب سے اول عرب میں دین لانے والے نبی اکرمﷺ اور ان کے اہل بیت و اصحاب رضی اللہ عنہم ) سے موافقت اختیار کر۔
(بحوالہ : حکمتِ رفاعی ۔ ناشر : آئینہ ادب ، چوک مینار ، انار کلی ، لاہور)