اصلاح معاشرہ نظم

نظم: سکوں جہیز کی دولت سے جا نہیں آتی

نتیجۂ فکر: شمس الحق علیمی، مہراج گنج

سکوں جہیز کی دولت سے جا نہیں آتی
ضمیر زندہ تو ہے کیا صدا نہیں آتی؟

جگر کے ٹکڑے کو والد نے دے دیا تم کو
"جہیز مانگ رہے ہو حیا نہیں آتی”

یہاں جہیز کے جو بھی حریص ہیں اُن کو
کسی کے نورِ نظر پر دیا نہیں آتی

جلا رہے ہو بہو کو جہیز کی خاطر
تمھیں ذرا بھی بہو پر دیا نہیں آتی

جہیز کے جو مخالف ہیں اس زمانے میں
گھروں میں ان کے کبھی بھی بلا نہیں آتی

سدا جہیز کی رٹ جو لگاتے ہیں اُن کے
لحد میں خلد سے ٹھندی ہوا نہیں آتی

اگر جہیز نہ ہو تو کسی کی بیٹی کی
زمین ہند سے ہرگز صدا نہیں آتی

بہت بری ہے نحوست جہیز کی شمسی
سوائے توبہ کے اس کی دوا نہیں آتی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے