ازقلم: غلام آسی مونس پورنوی
پرنسپل دارالعلوم انوارمصطفے تیلی باغ لکھنؤ
اللہ تبارک وتعالی نے اس جہان فانی میں حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر جناب محمد رسول اللہ ﷺ تک لاکھوں انبیاء کرام علیہم السلام کو اپنے بندوں کی رہنمائی و ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا، یکے بعد دیگرے انبیاء و مرسلین تشریف لاتے رہے، کسی کو پروردگار عالم جل جلالہ نے نئی شریعت دے کر دنیا میں بھیجا، کسی کو کسی کا معاون بنا کر بھیجا، کوئی کسی خطے کا نبی بنا کر بھیجا گیا، کوئی کسی خطے کی نبوت و رسالت سے سرفراز کیا گیا، سارے انبیاء کرام علیہم السلام یکے دیگرے تشریف لاتے رہے، اور سب سے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو ساری کائنات کے لئے نبی بنا کر بھیجا، اور آپ ﷺ پر نبوت و رسالت کا دروازہ بند فرمایا، اور اعلان فرمایا اب میرے محبوب کی نبوت ورسالت کے بعد کسی کی نبوت و رسالت نہیں، اب قیامت تک میرے محبوب کی نبوت و رسالت کا سکہ کھنکے گا،
جب پروردگار عالم نے نبوت ورسالت کے دروازے پر مہر لگادی، تو انسانی ذہن میں اک سوال پیدا ہوا، کہ مولیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر جناب محمد رسول اللہ ﷺ تک لاکھوں پیغمبران عظام تشریف لائے سبھوں نے تیرے بندوں کو ہدایت کا راستہ دکھایا، سبھوں نے تیرے بندوں تک تیرا پیغام پہنچایا، اور وحدانیت کی تسبیح پڑھی، مگر اب تیرے حبیب کی حیات ظاہری کے بعد تیرے بندوں کو ہدایت کے ساحل سے کون ہم آہنگ کروائے گا؟ قیامت تک تیرے اور تیرے محبوب کے دین کی نشرواشاعت کیسے ہوگی،
اس سوال کا جواب پیغمبر اسلام ﷺ کی حدیث دیتی ہوئی نظر آئی، اور فرمایا کہ ائے میرے امتیوں، تمہیں گھبرانے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے،
اللہ تبارک وتعالی نے دین موسوی کو چلانے کے لئے سینکڑوں انبیاء کرام کو موسیٰ علیہ السلام کا معاون بنا کر بھیجا تھا، کیونکہ میرے بعد اب کوئی نبی نہیں ہوگا اس لئے اب میں اپنی شریعت کی نشرواشاعت کے لیے اپنی شریعت کی تحفظ و بقا کے لئے اپنی امت کے علماء کا انتخاب کرتا ہوں، اور فرمایا
، العلماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل،
یعنی میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح دین کا کام کریں گے، اب میرے بعد دین کا کام میری امت کے علماء کے ہاتھوں میں ہوگا، جب میرے دین پر یلغاریں ہونگی تو اس وقت میرے وارثین اس کا دفاع کریں گے، جو اسلام کا منکر ہوگا اس کو اسلام کے فلسفۂ حیات سے آگاہ فرمائیں گے، خلاصہ یہ ہے کہ جو کام انبیاء کرام علیہم السلام سے بحیثیت نبی لیا جاتا تھا،
کیونکہ میرے بعد اب کوئی نبی نہیں، اب وہ کام میری امت کے علماء سے بحیثیت نائب النبی لیا جائے گا،
انہیں نائبین انبیاء میں شہر کش گنج بہار کا ایک ایسا چہرہ، جن کا چلنا پھرنا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا کھانا پینا، سلام و کلام کرنا سب سنت رسول ﷺ میں ڈھلی ہوئی تھی،
جن کو دنیا استاذ العلماء پیکر اخلاص و وفا سراج العلماء حضرت علامہ و مولانا الشاہ محمد سراج الحق نوری علیہ الرحمہ کے نام جانتی اور پہچانتی ہے،
حضور سراج العلماء کی پیدائش ١٠ /نومبر ١٩٦٣…… میں صوبہ بہار کے ضلع کشن گنج کے مولانی طیب پور گاؤں میں ہوئی،
کون جانتا تھا کہ ریاست بہار کے چھوٹے سے ضلعے کی چھوٹی سی بستی مولانی طیب پور میں جناب…. نبی بخش کے دولت خانے میں پیدا ہونے والا سراج الحق ایک دن سراج العلماء کی حیثیت سے دنیا کے سامنے نمودار ہوگا، اور اپنی شعاع علمی کو ایسا بکھیرے گا کہ اس کی ضیاء بار کرنوں سے خلق خدا اپنے آپ کو منور کرے گی، جن کی علمی روشنی کے سائے میں اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء کرام و مفتیان عظام زانوئے ادب تہہ کر کے شیخ الحدیث و شیخ الافتاء و التدریس کے مسند زرین پر براجمان ہونگے،
حضور سراج العلماء ایام طفلی سے ہی بڑے ذہین تھے، کچھ کرگذرنے کا جذبہ بچپن سے ہی دل میں موجزن تھا، اکتساب علم کے شعلے آپ کے ذہن و دماغ میں بھرکتے تھے، اکتساب علم کا شعلہ بھڑک کر جب جوالہ مکھی کی صورت میں تبدیل ہوگیا، تو آپ نے اپنے والد گرامی کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا،
والد گرامی نے فراست ایمانی سے دیکھ لیا تھا، کہ ننھا سا بچہ سراج الحق جس کے دل میں جذبۂ حصول دین کی جواریں بلند ہورہی ہے، اور اس کے اکتساب علم کے ساحل میں سنامیوں کے آثار نمایاں ہورہے ہیں، اب تو اس کی راہیں ہموار کرنے کی ضرورت ہے،
چنانچہ والد گرامی نے قصبہ ٹھاکر گنج ضلع کشن گنج کے مدرسہ اصلاح المسلمین میں آپ کا داخلہ کروا دیا، کئی سالوں تک وہاں علم دین کے صاف وشفاف چشمے سے سیراب ہوتے رہے،
ابتدائی درسی کتب حضرت علامہ مفتی سلیم اختر صاحب سے پڑھی، پھر جب علم کی پیاس اور بڑھی تو آپ نے ضلع بھاگلپور کا رخ فرمایا،
اس وقت دارالعلوم فیضیہ بھاگلپور پورے ہندوستان میں کوہ نور کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جاتا تھا
کیونکہ اس وقت دارالعلوم فیضیہ بھاگلپور کے مسانید درس وتدریس پر استاذ مطلق امام علم وفن حضرت علامہ مفتی خواجہ مظفر حسین علیہ الرحمہ اور جلالت العلم حضرت علامہ مفتی ایوب مظہر علیہ الرحمہ، فقیہ النفس مناظر اسلام حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن مضطر رضوی حفظہ اللہ اور استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی مشتاق احمد صاحب اور بھی بڑے بڑے نامور اکابرین کی متبرک اور متحرک جماعت کا قبضہ تھا، جو اپنے علم کی دھاروں کے وسیلے سے میخواران علوم نبوت کو علوم دین کے آب حیات سے سیراب فرما رہے تھے،
آپ نے دارالعلوم فیضہ میں داخلہ لیا، اور مسلسل کئی سالوں تک وہاں تعلیم حاصل کی، اس کے بعد ١٩٨٩ میں دارالعلوم فیضیہ کے سالانہ اجلاس کے پر بہار موقع پر مقتدر مشائخان طریقت و اکابر علماء کرام کے دستہائے متبرکہ سے ممتاز نمبرات سے دستار و سند حاصل کی،
دل میں علم دین عام کرنے کا جذبہ تو پہلے سے ہی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، اس لیے بعد فراغت دارالعلوم معین الاسلام ضلع بھروچ گجرات کے ذمہ داران کی دعوت پر دارالعلوم کی درسگاہ کو زینت بخشنے کے لئے دارالعلوم کی درسگاہ پر براجمان ہوئے، اور ایک سال تک طالبان علوم نبویہ کو علم دین کے شیریں جام سے سیراب فرمایا، مگر کچھ نامساعد حالات کے تحت وہاں سے لکھنؤ تشریف لے آئے،
پروردگار عالم شہر لکھنؤ میں سراج العلماء کے وسیلے زمینی کام لینا چاہتا تھا،
تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی روزی بھروچ سے لکھنؤ منتقل فرمادی، آپ معمار قوم و ملت حضرت الحاج قاری ابوالحسن قادری علیہ الرحمہ کی دعوت پر ١٩٨١ میں شہر لکھنؤ تشریف لائے،
اور آتے ہی مدرسہ وارثیہ کی فلاحی فکر میں مستغرق ہوگئے، اور اپنے آپ کو مدرسہ وارثیہ کے لئے ہبہ کردیا،
دن رات ایک کرکے مدرسہ وارثیہ کی ترقی کی پلاننگ کرتے اور اس پلاننگ پر کام کرتے جاتے، کبھی پلاننگ کامیاب ہوتی اور کبھی ناکام مگر ناکامی پر کبھی افسوس کا اظہار نہ فرمایا،
جس وقت آپ لکھنؤ تشریف لے آئے اس وقت شہر لکھنؤ کی حالت بہت ہی قابل رحم تھی، اپنے اور پرائے کی تشخص باقی نہ تھی، لکھنؤ کے چپے چپے پر ندوہ و دیوبند کے چمچوں کا قبضہ تھا، اس بے سرو سامانی کے عالم میں آپ نے اپنے حکمت عملی کی بنیاد پر کامیابیوں کی دہلیز پر قدم رکھا، اللہ کی قدرت اشارہ دے رہی تھی کہ سراج الحق اسی طرح کام کرتے چلے جاؤ، ایک دن وہ آئے گا جب کوئی مؤرخ تاریخ رقم کرے گا تو یہ تیرے کارنامے یہ تیری قربانیاں آب زر سے لکھی جائیگی، المختصر یہ کہ جب مچھلی محال لکھنؤ میں طالبان علوم نبویہ کہ ہجوم کی بنیاد پر مدرسہ وارثیہ کی دیواریں تنگ ہونے لگیں، تو آپ نے معمار قوم وملت حضرت قاری ابوالحسن قادری علیہ الرحمہ سے فرمایا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ مدرسہ وارثیہ کسی وسیع و عریض آراضی پر منتقل ہوجاتا، کیونکہ اس وقت لکھنؤ کی سرزمین پر مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت کے لئے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے، اس لئے ایک مرکزی درسگاہ کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اتنا سننے کے بعد معمار قوم و ملت حضرت قاری ابوالحسن قادری علیہ الرحمہ نے فرحت و شادمانی کا مظاہرہ فرمایا، اور آپ کے ماتھے کو چوم کر فرمایا مولانا آپ جیسے مرد مجاہد کی شہر لکھنؤ میں اشد ضرورت تھی، تو
اللہ نے آپ کو شہر لکھنؤ میں مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت کے لئے منتخب فرمایا، یہ تمام باتیں راز داروں کے مابین ہوئی، پھر اس پلان پر کام شروع ہوا، دھیرے دھیرے اسباب مہیا ہونا شروع ہوگئے، آخر وہ دن بھی آگیا مدرسہ وارثیہ مچھلی محال سے نکل کر گومتی ندی کے اس پار اجریاؤں گاؤں سے متصل سنسان بیابان میں ایک وسیع و عریض آراضی پر آباد ہوگیا، آج وہ جگہ اور اس کا گردونواح شہر لکھنؤ کے سب سے وی آئی پی علاقوں میں گنا جاتا ہے،
اب ضرورت تھی دارالعلوم وارثیہ کو بام عروج تک پہنچانے کی، سراج العلماء اپنی عادت متواتر کے مطابق دل میں عشق خدا اور رسول کا چراغ روشن کرکے دارین کی منازل کا سفر طے کرنے لگے، اور برائے تبلیغ دین متین آبادیوں کی طرف سرگرم عمل ہوئے، اس کا اثر یہ ہوا کہ عوام آپ کے حلقۂ عقیدت میں جمع ہوتیں گئیں، یہاں تک کہ آپ کے عقیدت مندوں کی ایک بڑی جماعت پیدا ہوگئیں، آپ نے ان کی عقیدت کے وسیلے دارالعلوم وارثیہ کی راہیں ہموار کرنا شروع کردیا، دھیرے دھیرے دارالعلوم وارثیہ کی عمارتیں پایۂ تکمیل تک پہنچنے لگیں، دن رات ایک کرکے اپنا خون جگر جلا کر اپنی راتوں کی نیندیں قربان کرکے دارالعلوم وارثیہ کی راہوں میں حائل ہونے والے پتھروں کو اپنے نازنین ہاتھوں سے ہٹایا،
اور دارالعلوم وارثیہ کو اس مقام ومنزل پر لاکر کھڑا کیا کہ دارالعلوم کو جس مقام و منزل پر ہونا چاہیۓ تھا، اور سراج العلماء کی کاوشوں نے دارالعلوم وارثیہ کو ایک الگ میعار عطا فرمایا، معمار قوم و ملت حضرت قاری ابوالحسن قادری صاحب علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے، کہ اللہ نے سراج العلماء کو میرا ناصر و ہمنوا بنا کر لکھنؤ بھیجا ہے،
یہ حق ہے کہ دارالعلوم وارثیہ کی بنیاد معمار قوم وملت نے ڈالی،مگر یہ بھی سچ ہے کہ دارالعلوم وارثیہ کی کچی دیواروں کو سراج العلماء نے اپنے خون جگر سے سیراب کیا، یہ حق ہے کہ گلستان وارثیہ معمار قوم و ملت نے لگایا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کی باغبانی سراج العلماء نے فرمائی، یہ حق ہے کہ وارث پاک کے فیضان کا چراغ معمار قوم وملت نے جلایا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس میں لہو بشکل روغن سراج العلماء نے ڈالا
اتنی محنتوں اور کاوشوں کو دیکھنے کے بعد موسم خزاں نے شرم سے اپنا چہرہ چھپا لیا، اور موسم بہار نے زمین وارثیہ پر حاضری اور اسی کا ہوکر رہ گیا،
پھر کیا تھا دارالعلوم وارثیہ کی تعلیمی میعار کی خوشبو زمین ہند کے تقریباً سبھی بلاد و امصار میں پھیلتی چلی گئیں، اس انوکھی اور نرالی خوشبو سے اپنے مشام جان کو معطر کرنے کے لئے طالبان علوم نبوت کے قافلوں نے دارالعلوم وارثیہ کی جانب لنگر اٹھانا شروع کردیا،
سراج العلماء نے بحیثیت رئیس الاساتذہ تعلیم و تعلم کا ایسا نظم و نسق پیدا فرمایا کہ ہرایک طالب علم کی دلی خواہش ہوتی کہ وہ بھی دارالعلوم میں وارثیہ میں رہ کر تعلیم دین متین کا مکتسب ہو، المختصر یہ ہے کہ دارالعلوم وارثیہ کو اس مقام تک پہنچانے میں سراج العلماء نے معمار قوم وملت کا راست بازو بن کر اپنی رفاقت کا کما حقہ حق ادا فرمایا،
آج جو آسمان کو آنکھیں دکھائی عمارتیں آراضیٔ وارثیہ پر سینہ تان کر کھڑی ہیں ان کی بنیاد میں معمار قوم وملت کے ساتھ ساتھ سراج العلماء کا بھی لہو شامل ہے،
اور آج جو سنیت کی بہاریں زمین لکھنؤ پر دیکھنے کو مل رہی ہیں یقیناً اس میں سراج العلماء کا سب سے بڑا یوگدان ہے، ایسی درجنوں مساجد کو اپنے قبضے میں لیا جو اغیار کے اڈے ہوا کرتے تھے، اپنی تلامذہ کا جال پھیلا کر شہر لکھنؤ کے ان جگہوں پر قابض ہوئے جن جگہوں پر اغیار کا قبضہ ہوا کرتا تھا، اپنے اور اپنے شاگردوں کے وسیلے ہاتھوں میں مسلک اعلی حضرت کا پرچم لیکر یلغاریں کیں، شب خون مارے اور لکھنؤ کے ہر علاقے کو فتح کرتے چلے گئے، اور مسلک اعلی حضرت سے عوام کو روشناس کرایا، لکھنؤ میں جب بھی کہیں کوئی دینی ملی مسائل درپیش ہوئے مثلاً کسی علاقے میں امام کی ضرورت ہوئی تو امام مہیا کرایا، خطیب کی ضرورت ہوئی خطیب عنایت کیا، مدرس کی ضرورت ہوئی مدرس عطا فرمایا، کسی کے گھر کا سنتولن بگڑا تو اس کے گھر کے سنتولن کو سنبھال کر اس گھر کے اداسیوں کے چہرے پر زناٹے دار طماچہ رسید کیا،
الغرض دین وملت کو جہاں جہاں سراج العلماء کی ضرورت درپیش ہوئی سراج العلماء وہاں وہاں پیش رو نظر آئے، مگر کہتے ہیں کہ جو جتنا عظیم ہوتا ہے اسکی آزمائشیں بھی اتنی ہی سخت ہوا کرتی ہیں، سراج العلماء نے بہت سے آزمائشوں کے طوفانوں کا سینہ تان کر مقابلہ کیا، اور ہر مقابلے میں کامیاب ہوئے، مگر ان کی زندگی میں ایک موڑ ایسا بھی آیا کہ ایسے موڑ پر انسان اپنے آپ کو کھو دیتا ہے، جب کسی باپ کے سامنے اسکے جوان بیٹے کی میت پڑی ہو، اس درد کا احساس کوئی صاحب اولاد ہی کر سکتا ہے،
ایسا ہی کچھ حادثہ سراج العلماء کے ساتھ بھی ہوا، یعنی سن ٢٠٠٧ میں آپ کے بڑے صاحبزادے محمد فیضان رضا کا انتقال ہوگیا، مگر اس وقت بھی آپ نے اپنے رب کا شکر ادا کیا اور ہاتھ سے صبر کا دامن نا جانے دیا،
اور بھی کئی بڑے بڑے حادثات آپ کی زندگانی میں رونما ہوئے، اپنوں نے پیٹھ پوچھنے کے بہانے پیٹھ میں خنجر اتار دیا مگر کبھی آپ نے کوئی شکوہ و گلہ نہ فرمایا، ہمیشہ صبروشکر کو اوڑھنا بچھونا بناکر دین وملت کے تخیلات میں مستغرق ہوکر بستر استراحت پر دراز ہوتے، نیند کرم کا شامیانہ تان کر اپنے آغوش میں جھولا جھولانے لگتی اور جب بیدار ہوتے تو وہی صبح کی چمک وہی سارے جھنجھٹ و جھمیلے مگر سب کو پرے رکھ کر دین وملت کی راہیں کیسے ہموار ہوں، یہی تخیلات دم آخر تک آپ کا مشغلہ رہا
مگر افسوس صد افسوس اتنی جلدی مصطفےٰ جان رسالت ﷺ کا وہ عاشق صادق جس کے دل کی دھڑکن ہردم نبی نبی بولتی تھی، جو صفات قلندری کا حامل تھا، ٨/رمضان المبارک ١٤٤٢ھ مطابق ٢١اپریل ٢٠٢١ بروز بدھ تقریباً رات ساڑھے دس بجے، دنیا کو خیر آباد کہہ کر ملک عدم کے راہی ہوگیا ، انا للہ وانا الیہ راجعون
دوسرے دن یعنی ٩/ رمضان المبارک ١٤٤٢ھ بروز جمعرات کو نماز ظہر سے پہلے گومتی نگر کے مشہور قبرستان گور شہیداں اجریاؤں میں ہزاروں نے اپنے نمناک آنکھوں کے ساتھ آپ کو سپرد خاک کیا، آپ کے جنازے کی نماز آپ ہی کے عزیز از جان حضرت قاری ہارون رشید صاحب قبلہ نے پڑھائی، اور آپ کے تلمیذ خاص حضرت علامہ مفتی شیر محمد مصباحی صاحب قبلہ شیخ الحدیث دارالعلوم وارثیہ نے رقت انگیز دعا کی،
اللہ تبارک و تعالیٰ حضور سراج العلماء کے درجات کو بلند فرمائے اور آپ کا فیضان ہم سبھوں پر جاری فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سیدالمرسلین