غوث العالم ، تارک السلطنت، قطب ربانی، محبوب یزدانی، قدوة الکبرا، حضرت میر سلطان سید اوحد الدین جہاں گیر اشرف سمنانی علیہ الرحمہ (متوفی ٨٠٨ھ) تقریبا ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ طبقات الصوفیہ میں فرماتے ہیں کہ شیخ ابو الحسن جو سید احمد کبیر رفاعی کے ماموں زاد بھائی تھے فرماتے ہیں: ایک دن اپنے ماموں کی خلوت گاہ کی چوکھٹ پر بیٹھا تھا، آپ کی بارگاہ میں میں نے کسی کی آواز سنی، غور سے دیکھا تو آپ کے سامنے ایک شخص بیٹھا ہوا تھا جس کو میں نے کبھی دیکھا نہیں تھا، ایک لمبی مدت تک باہم گفت و شنید کرتے رہے، پھر وہ شخص شیخ کی خلوت گاہ کی دیوار میں بنی ہوئی کھڑکی سے باہر نکل کر تیز بجلی کی مانند ہوا میں پرواز کر گیا، اس کے بعد میں شیخ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ یہ کون صاحب تھے، آپ نے فرمایا: تم نے اسے دیکھا؟ میں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ شخص تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے سمندر کی حفاظت پر مامور فرمایا ہے، وہ رجال اربعہ میں سے ایک ہیں۔
تین دن ہوچکے ہیں کہ وہ متروک بارگاہ ہوچکے ہیں مگر انہیں خبر نہیں، میں نے عرض کیا: یا سیدی! ان کی مہجوری کی وجہ کیا ہے: آپ نے فرمایا: ایک دن سمندر کے ایک جزیرہ میں مقیم تھے، اس جگہ مسلسل تین دن تک بارش ہوئی، آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ کاش یہ بارش آبادیوں میں ہوتی، اس کے بعد توبہ کرلیا، محض اس اعتراض کی وجہ سے متروک ہوگئے، میں نے عرض کیا: یا سیدی ! کیا آپ نے ان کو اس کے بارے میں بتادیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں مجھے شرمندگی محسوس ہوئی، میں نے کہا: اگر اجازت ہوتو میں ان کو مطلع کردوں؟
آپ نے فرمایا کیا تم ایسا کر سکتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا اپنا سر اپنے گریبان میں ڈالو، میں نے ڈال لیا، ایک آواز میرے کان میں پہنچی کہ اے علی اپنا سر اٹھاؤ ، میں نے سر اٹھایا تو خود کو سمندر کے ایک جزیرہ میں پایا، اپنی حالت پر حیران ہوا، تھوڑی دور چلا ، اس شخص کو دیکھا، اس سے سلام کیا اور اس کے سامنے ماجرہ پیش کردیا، اس شخص نے مجھے قسم دی کہ جیسا میں آپ سے کہوں ویسے ہی کرنا، اس شخص نے کہا میرے خرقہ کو میری گردن میں ڈال کر مجھے زمین پر گھسیٹو اور یہ صدا لگاؤ کہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو اللہ کے فیصلے پر اعتراض کرتا ہے، اس کے خرقہ کو اس کی گردن میں ڈال کر گھسیٹنا چاہا تبھی ایک منادی نے آواز دی کہ اے علی! اس کو چھوڑ دو کہ زمین و آسمان کے فرشتے اس کی حالت پر آہ و زاری کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوگیا ہے، جب میں نے آواز سنی بے خود ہوگیا، جب ہوش آیا خود کو ماموں کے سامنے پایا، باخدا مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کیسے گیا اور کیسے آیا۔ ( تحائف اشرفی اردو ترجمہ لطائف اشرفی، مقدمہ، لطیفہ اول و دوم،ص: 254،255،ناشر: رضا اکیڈمی ممبئی)
بزم رفاعی
خانقاہ رفاعیہ
بڑودہ، گجرات
9978344822