از قلم: محمد ایوب مظہر نظامی
صدر مدرس: دارلعلوم غریب نواز طیب پور، کشن گنج (بہار)
کسی شاعر نے کبھی شوق نیاز مندی میں کہاں تھا،
یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی!
یہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں!
شاعر کی نوک قلم سے حقیقت کا یہ برملا اظہار اس کی شاعرانہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے، جو مدارس کی تاسیس کی ترجمانی کرتا ہے، جن کے بطن سے دینی علوم و فنون کے بڑے بڑے مسند نشین پیدا ہوئے، جنہوں نے بے شمار انسانوں کو کفر وشرک کی گم گشتہ راہوں سے نکال کر ایمان یقین کی دہلیز پر لاکھڑا کر دیا اور آج بھی کشور ہند کے چپے چپے میں خلق خدا اپنی عاقبت کی دائمی سرفرازی کے لئے ان ہی علمائے ربانیین کی رہین منت ہے،
ہندوستان کے طول و عرض میں ہزاروں کی تعداد میں مدارس اسلامیہ ہیں جو بالعموم اپنے تعمیری کاموں میں عصر حاضر کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں مگر ان کے نظام و مزاج میں آج بھی "آثارِ قدیمہ” کی منہ بولتی تصویر ہیں، علاقائی عوام سے خوشگوار تعلقات بنا کر چرم قربانی اور روپے دو روپے کی حصول یابی کے فرسودہ طریقے نے آج اہل مدارس کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے طلباء کو نہ صرف یہ کہ سوسائٹی میں مردے کی تڑپتی ہوئی روح کی تسکین کے لئے قرآنی خوانی اور اس کے تیجے اور چالیسویں کی دعوت پر بھیجے بلکہ وقت آنے پر ان کی "مرغیاں” حلال کرنے کے لئے بھی اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے ان کی نادیدہ مسرت کی ضیاء ان کے چہروں سے عیاں ہوتی ہے، بالعموم ہندوستان کے اکثر اور بالخصوص غیر منقسم بہار کے مدارس کا میں نے اپنی اشک بار آنکھوں سے وہ دلدوز منظر دیکھا ہے جہاں ہمارے مستقبل کے مذہبی قائدین ٹولیوں میں بٹے قرآنی خوانی کا ڈبہ لئے، بال بکھرے ہوئے، ٹوپیاں بے ترتیب، کرتے اور لنگیاں نیم غربت کی چغلیاں کھاتی ہوئیں اور پیروں میں ہوائی چپل مفلسی کا افسانہ بیان کرتے ہوئے اپنے میزبان کے دولت کدے کی طرف چلے جا رہے ہیں، اور جب وہ اس حال میں اپنے میزبان کی چوکھٹ پر قدم رکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ،
دل نے ایک نالہ کیا آج اس طرح دیوانہ وار!
بال بکھرائے کوئی مستانہ وار آ ہی گیا!
قرآنی خوانی اور تیجہ، چہلم کے لئے سوسائٹی کی Ramp پر ہمارے طلباء کی اس Catwalk نے مدارس کے نصب العین کو اپنی ہی پیروں تلے روند کر اپنی عظمت کو پارہ پارہ کر
دیا،تقسیم ہند کے بعد
سیکولر ہندوستان میں مختلف مذاہب کے درمیان اربابِ مدارس کے پاس اپنے مراکز کی توسیعی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لئے صرف ایک نکاتی فارمولہ رہ گیا ہے جسے وہ پچھلے ستر سالوں سے کیش کرتے چلے آ رہے ہیں، جدھر نظر اٹھائے اور جدھر کان لگائے مدارس کی توسیع اور تحفظ میں مالی حصہ داری کے بدلے ” خلد بداماں کی نوید” اور "حور و غلماں کی بشارت” دکھائی اور سنائی دیتی ہے، ہمارے مدارس کے اربابِ حل و عقد نے پچھلے سات دہائیوں سے زبانی جنت کا ٹکٹ اس فیاضی سے تقسیم کیا ہے کہ اب قوم اسے لینے کے کو آسانی سے تیار نہیں،
مدارس کی تعلیمی و تعمیری ترقی میں مالی تعاون کے بدلے جنت کی بشارت نے عام افراد کے دلوں میں کن منفی اثرات کو پیدا کیا وہ شاید مدارس کے منتظمین کی نگاہوں سے اوجھل ہے، تاریخ اسلامی کا مطالعہ کرنے والے اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ عہد رسالت سے خلفاء راشدین تک کسی بھی دور میں اسلامی تحریکات کی آبیاری کے لئے قوم کو صرف جنت کی بشارت نہیں دی گئی بلکہ اس سے پہلے نصب العین سامنے رکھا گیا، لوگوں نے مال کا ہی نہیں عظمت اسلام کے لئے جان کا بھی نذرانہ پیش کرنے میں دریغ نہیں کیا، غزوۂ تبوک اس کی زندہ مثال ہے کہ جب سرکار دو جہاں مدنی تاجدارِ ﷺ نے مذہب اسلام کی توسیع و تحفظ اور اعلائے کلمۃ الحق کے لئے ہرقل کی فوجوں سے مقابلہ آرائی پر سرحد شام کی طرف مسلمانوں کو تیاری اور شریک لشکر ہونے کا حکم دیا اور اسلحۂ جنگ، زاد راہ اور سواریوں کے لئے عام چندے کی اپیل فرمائی تو عظمت اسلام کا علم بلند کرنے کے لئے حضرت عثمانِ غنی اٹھے اور نو سو اونٹ، سو گھوڑے مع ساز و سامان اور ایک ہزار دینار طلائی حضور کے قدموں میں نچھاور کر دیا، حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے گھر کا تمام مال و اسباب حضور کی بارگاہ میں پیش کرکے اپنے اہل و عیال کو خدا کے سپرد کر دیا، حضرت فاروق نے اسلام کی سربلندی کے لئے اپنا نصف مالدربار جان جاناں میں حاضر کر دیا اور وہ لوگ جو بہت غریب تھے انہوں نے اپنے ناداری کے باوجود جو کچھ ان کے پاس تھا اسلام کی نذر کر دیا، چونکہ نصب العین سامنے تھا اس لئے دینے والوں نے اپنی حیثیت کا گلہ نہیں کیا، مگر مدارس کے تعاون کے لئے مقصد اور نصب العین بیان نہیں کیا جاتا، اس لئے عام انسان سے سرمایہ داروں تک اپنی رقم کسی ایک ادارہ یا کسی ایک شعبے کو نہیں دیتا بلکہ اپنی رقم کئی اداروں، درگاہوں، جلسوں، تنظیموں اور دین کے نام پر لایعنی سرگرمیوں میں صرف کرکے کئی گنا ثواب کے استحقاق کا تصور کرکے مسرور رہتا ہے، گویا ثواب اور خلد بداماں کی نوید کے نام پر تعاون بکھرا تو مدارس کا نصب العین بھی بکھر کر رہ گیا ، پھر مزید یہ کہ ثواب و بشارت کے حوالے سے مدارس کی تعمیر و ترقی کے لئے اپیل کرنے پر دینے والا چندہ دیکر ثواب اور خلد بریں کا سرفراز نامہ لے کر لوٹ جاتا ہے اور دینے کے بعد اسے یہ آرزو تک نہیں رہتی کہ جس کام کے لئے اس نے اپنی سخاوت کا مظاہرہ کیا ہے وہ پایۂ تکمیل تک پہنچا یا نہیں؟ نتیجتاً منتظمین کو کھلی آزادی مل جاتی ہے جس کو وہ اپنے متکبرانہ مزاج کے مطابق تصرف فرماتے ہیں، اگر مدارس کی ضرورت و اہمیت اور نصب العین کے نام پر مانگا جاتا کہ آج معاشرے پر مغربی تہذیب نے جس طرح شب خون مارا ہے گویا ہمارے نسلوں کے دل و دماغ سے مذہبی روح کھینچ لی گئی ہے، میڈیا نے مدارس کو دہشت گردی کے مراکز قرار دے کر معاشرے میں شریعت کے محافظین کے دستے ختم کرنے کی جو ناپاک مہم شروع کی ہے اگر وہ کامیاب ہو گئے تو پھر کون مذہبی تشخصات کی تحفظ و بقا کے لئے سربکف نظر آئے گا؟ آج ملت اسلامیہ خطرے کے کگار پر کھڑی ہے، اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف کی جانے والی سازشوں کی نقاب کشائی کے لئے ضروری ہے کہ دین کے یہ قلعے اپنی پوری توانائی کے ساتھ صرف یہ نہیں کہ محفوظ و مامون رہیں بلکہ عصری تقاضوں کے مطابق عروج و ارتقاء کے منازل طے کریں، تو شاید دینے والے گلشن اسلام کی آبیاری کے لئے اپنی عظیم الشان تاریخ کو دہراتے، مدارس کی تعمیر و ترقی اور نظام و نصاب پر نظر رکھی جاتی، اربابِ مدارس "شیڈول کاسٹ” کی طرح سوسائٹی سے الگ نہیں سمجھے جاتے اور ان عظیم اور بے لوث خدمات کے عوض علماء اور طلباء کا وقار بلند ہوتا، انہیں مساکین و غرباء نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسلام کے جاں باز محافظین کے طور پر جانا جاتا، لیکن ہائے افسوس موجودہ حالات کے تناظر میں تو یہی کہنا پڑتا ہے کہ الوؤں کے ہاتھوں گلستاں کی بربادی کی داستان تو بہت سنی تھی مگر عندلیبان چمن کے ہاتھوں گلستاں کے تاراج ہونے کا تماشا پہلی بار دیکھا ہے،
ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ اربابِ مدارس خود کو اس مزاج و ماحول سے الگ رکھا ہے لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ مدارس کا نرخ اونچا ہو علماء اور طلباء کا سوسائٹی میں وقار بلند ہو تو ہمیں بہر حال اپنے اس فرسودہ نظام و ماحول میں ترمیم و تنسیخ کرنی ہی پڑے گی