اصلاح معاشرہ

جہیز سے بھی زیادہ مہلک عناصر

تحریر: پٹیل عبد الرحمن مصباحی، گجرات (انڈیا)

بات صرف جہیز کی نہیں، اصل پرابلم وہ فضا ہے جو نصف صدی سے موجودہ نسل کے گرد بنائی گئی ہے اور دن بہ دن نوجوان اس کے دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں. کرائم پیٹرول جیسے ٹی وی شوز میں دکھائی جانے والی حسین ترین خود کُشیوں سے لے کر درجنوں سِیریَلوں میں پیش کیے جانے والے محبت کے غلیظ ترین ڈھونگ تک اور وہاں سے لے کر عشقیہ فلموں کی ناکام محبت کے نتیجے میں برپا ہونے والے سوسائڈ سِین تک؛ موجودہ نسل کے چاروں طرف ایسے مواد کا ڈھیر لگا ہوا ہے جو ان کی ذہنیت کو مسلسل مجروح کر کے انہیں احساس کمتری کے گہرے کنویں میں دھکیل رہا ہے. فلمی ایکٹروں کے ذریعے کی جانے والی روز مرہ کی خود کشیاں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں، اور اِس طرح کمزور نفسیاتی بیک گراؤنڈ رکھنے والی نئی نسل بڑی آسانی سے خود کشی کی حماقت کو نجات کا ذریعہ سمجھ لیتی ہے. جہیز جیسی دو چار رسمیں کھائی کے کنارے کھڑے انسان کو چھلانگ لگا کر جان ہلاک کرنے کا موقع ضرور فراہم کرتی ہیں مگر سوسائڈ کو حقیقی جواز بلکہ مقبولیت اور آگے بڑھ کر کہا جائے تو رواج دینے میں سب سے بڑا ہاتھ ان فلمی اور ڈرامائی تعلیمات کا ہے جو ہمارے گھروں میں داخل ہو چکی ہیں. رہی سہی کسر اسٹینڈ اپ کامیڈی میں بیان ہونے والی بے ہودہ محبت اور مشاعروں میں پڑھی جانے والی جان لیوا شاعری پوری کر دیتی ہے.

ایک طرف تو پرانی نسل نے سماج کا بُت کھڑا کیا ہوا ہے جہاں ہر اچھا برا مناسب نامناسب کام صرف اس لیے کیا اور کرایا جاتا ہے کہ سماج کا دیوتا برا نہ مان جائے، حالاں کہ سماج کے بہت سے واہیات رسم و رواج نہ تو شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں نہ ہی عام اخلاقیات سے اس کی تائید ممکن ہوتی ہے. دوسری طرف نئی نسل "ہم لے کے رہیں گے آزادی” کے کھوکھلے نعروں سے ایسی مرعوب ہو چکی ہے کہ اسے اپنے ہر داخلی و خارجی اور ذاتی و سماجی پرابلم کا واحد حل مغرب پرستی اور اس کی نمائندگی کرنے والے اداکاروں کی اندھا دھند تقلید میں نظر آتا ہے. اب نئی نسل کو کون سمجھائے کہ جو مغرب اپنی آزاد روش کے نتیجے میں یورپ سے لے کر امریکہ تک اخلاقی پسماندگی، نفسیاتی ہیجان، خاندانی ٹکراؤ، سیاسی کرپشن اور روز مرہ کی خود کُشیوں کا جہنم بن چکا ہے اس کی پیروی کر کے اپنی زندگی کو جنت نما بنانے کا تصور؛ ڈراؤنے خواب کے سوا کچھ بھی نہیں. ساتھ ہی پرانے لوگوں کو بھی چاہیے کہ اپنے خود ساختہ سماجی ڈھانچے پر دوبارہ غور کریں اور تمام غیر ضروری بندشوں کو یک قلم مسترد کر دیں تاکہ نئی نسل چند گھسے پٹے رواجوں کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے اپنے بڑوں سے متنفر ہو کر ان کے تجربات کی روشنی سے محروم نہ ہو جائے.

دو نسلوں کی دو طرفہ ہٹ دھرمی اور ان کے گرد چو طرفہ فلمی و ڈرامائی آلودگی سے جو ماحول پیدا ہوا ہے اس سے جنریشن گِیپ وجود میں آیا ہے. یہ حقیقت ہے چاہے ہم اس سے خبر دار ہوں یا نہ ہوں. یہ چیلنج ہے چاہے ہم اس سے آنکھیں بند کر کے پھر غفلت کی نیند سو جائیں، چاہے دو چار گالیاں جہیز کو دے کر آنکھیں چرانے کی کوشش کریں یا پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے مقابلے پر آمادہ ہو جائیں. بہر حال چیلنج ہمارے سامنے ہے، اپنے رد عمل کا تعیّن ہمیں خود کرنا ہے.

در اصل موجودہ انسانی سماج بزدل بن چکا ہے. یہ اپنی غلطی کا اعتراف کر کے نئی شروعات کی طرف نہیں بڑھتا بلکہ اپنی ہر غلطی کا کوئی جائز یا ناجائز، معقول یا غیر معقول سبب تلاش کر کے سارا وبال وہاں ڈال دیتا ہے اور اطمینان سے پھر اسی ماحول میں مست ہو جاتا جس کے نتیجے میں پہلا حادثہ پیش آیا تھا پھر دوسرا پھر تیسرا اور پھر نہ جانے کتنے…….یہاں تک کہ عائشہ.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے