از قلم: محمد شمیم رضا اویسی امجدی
زندگی آپ کے قدموں تلے دَھرْ جائیں گے
یا نبی آپ کی ناموس پہ مر جائیں گے
آپکی عظمت و عِفّتْ کی حفاظت کے لیے
آپکے نام کی ہم عزت و حرمت کے لیے
بحرِ ظلمات میں بے خوف اُتَر جائیں گے
یا نبی آپکی ناموس پہ مر جائیں گے
آپکی ذات پہ اِک حرف نہ آنے دیں گے
آپ کے نام کا پرچم نہ جھکانے دیں گے
گر چہ طوفانِ حوادث میں بکھر جائیں گے
یا نبی آپکی ناموس پہ مر جائیں گے
وہ کبھی آئینہ سورج کو دِکھا سکتے نہیں
عظمتِ سرورِ کونین گھٹا سکتے نہیں
وہ ذلیل ہونگے زمانے میں جدھر جائیں گے
یا نبی آپکی ناموس پہ مر جائیں گے
آپکے نام پہ ہر ظلم و ستم سَہْ لیں گے
ہر پریشانی ہر اِک رنج و الم سَہْ لیں گے
ہم دہکتے ہوئے شعلوں سے گزر جائیں گے
یا نبی آپکی ناموس پہ مر جائیں گے
آپکے در سے ہے وابستہ غلاموں کا سرور
لاکھ تکلیفیں ملیں ہم کو مگر پھر بھی حضور!
آپکے نام پہ ہم جاں سے گزر جائیں گے
یا نبی آپکی ناموس پہ مر جائیں گے
دل میں جب عشقِ رسالت ہے تو وحشت کیسی
اہلِ باطل سے لرزنے کی ضرورت کیسی
ہم کو کَمْ ظَرْف سمجھتے ہیں کہ ڈر جائیں گے
یا نبی آپکی ناموس پہ مر جائیں گے
لاکھ بدکار و سیہ کار تو! بندہ ہے شمیم
ہم غلاموں کا مگر پھر بھی عقیدہ ہے شمیم
انکے قدموں میں مرینگے تو سَنوَرْ جائیں گے
یا نبی آپکی ناموس پہ مر جائیں گے