تحریر: محمد اشرف رضا قادری
مدیر اعلی سہ ماہی امین شریعت
اردو کی ادبی تاریخ میں تقدیسی شاعری یعنی حمد و مناجات اور منقبت نگاری کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ نعت گوئی کی صحت مند اور توانا روایت شروع سے موجود رہی ہے ۔ اردو شاعری کے جتنے بھی قابلِ ذکر ادوار ہیں ، ان میں نعت گو شعرا کی ایک معتد بہ تعداد نظر آتی ہے ۔ یہ الگ سی بات ہے کہ ہمارے محققینِ ادب نے غزل گو شعرا کے مقابل نعت نگاروں کو وہ اہمیت نہیں دی ، جس کے وہ مستحق تھے ۔ نعت کی حیثیت ایک مستقل صنفِ سخن کی ہے ۔ مرد ، عورت ، مسلم و غیر مسلم ہر ایک نے حسبِ توفیق و استطاعت اس فن میں طبع آزمائی کی ہے اور نعتیہ ادب کے ذخیرے میں خوش گوار اضافہ کیا ہے ۔ فارسی اور اردو ادبیات کے وسیع ترین ذخیرے میں نعتیہ شاعری محض اپنی وسعت و ہمہ گیری اور کمیت و کیفیت کے لحاظ سے اپنی فراوانی کی بنا پر ہی نہیں ، بلکہ اپنے منفرد انداز و اسلوب ، جداگانہ فکر و نظر ، مخصوص والہانہ لب و لہجہ ، دل آویز رنگ و آہنگ اور بے پناہ مقبولیت و تاثیر کی بنیاد پر اس بات کی مستحق ہے کہ اسے دوسرے اقسامِ ادب کے مقابلے میں ایک منفرد و ممتاز صنف قرار دیا جائے اور اس کے مقاصد و مطالبات کی روشنی میں اسے صرف اردو و فارسی یا اسلامی ادبیات ہی میں نہیں بلکہ عالمی ادب میں ایک ممتاز مقام کا مستحق قرار دیا جائے ۔ نعت ایک مستقل صنفِ سخن ہے یا نہیں ؟ ایک مستقل بحث ہے ، لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ ایک مستقل صنف ہے اور اس کی وسعت و ہمہ گیری اور استقلالی حیثیت تاریخِ ادب کے مسلمات میں سے ہے ۔
(ماخوذ از خیابان نعت