اس عالم رنگ و بو میں جو آیا ہے وہ ضرور سفر آخرت اختیار کرے گا، لیکن بہتیرے آئے، گئے، آرہے ہیں، جارہے ہیں اور آئیں گے، جائیں گےمگر سب آنے جانے والے برابر نہیں، کچھ جانے والے ایسے بھی رہے کہ اب ان کی آل اولاد بھی انھیں نہیں جانتی، کیوں کہ کسی بھی زاویے سے ان کا کوئی کارنامہ نہیں رہا، وہیں کچھ ایسے بھی گئے کہ آل و اولاد ہی کی کیا تخصیص انھیں زمانہ، اہل دنیا اور صفحات تاریخ بھی بھلانے کے لیے تیار نہیں، ان کے عظیم کارناموں کی بنیاد پر۔
انھیں نہ بھلائی جانے والی شخصیات میں حضرت علامہ مفتی ابوطالب فیضی نوراللہ مرقدہ (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم نور العلوم کنہٹی سلطان پور، متوطن اینٹئ رام پور اترولہ ضلع بلرام پور کی ذات والاصفات بھی ہے۔
بلاشبہ موصوف انتہائی باصلاحیت اور 40/ سالہ تجربہ کار مدرس اور کئی کتابوں کے مصنف تھے، ان میں سے آپ کی تصنیف عرفان الصیغہ شرح علم الصیغہ بہت مشہور ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ و سیرت پر بھی آپ کی متعدد کتابیں منظرعام پر آئیں مثلاً سوانح مظہر شعیب الاولیاء۔ اس کتاب میں آپ نے حضرت "خلیفہ صاحب” کی حیات، خدمات اور دیگر مصرفیات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
آپ نہایت خلیق و ملنسار، متواضع، خردہ نواز، انتہائی متصلب عالم دین اور مسلک اعلیٰ حضرت کے بے لوث ناشر ومبلغ تھے۔
آپ دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف کے قدیم ترین اور ممتاز فارغین میں سے ایک بڑے محاسن و کمالات کے حامل تھے۔ حتی الامکان میرا یہ کہنا صد فی صد بجا ہوگا کہ "دارالعلوم فیض الرسول کو آپ کی ذات پر بڑا ناز تھا”
راقم الحروف کی مختلف مقامات پر متعدد ملاقاتیں رہیں، بہت کچھ پندو نصائح اور معلومات افزا افکار سے مشرف فرمایا، جن کا بیان اس مختصرسے تعزیت نامے میں مشکل ہے۔ اس حقیر کی خوہش و گزارش پر کچھ تحریریں بھی سپرد قرطاس فرمایا، خود راقم کی چند کتابوں کے لیے دعائیہ کلمات اور تأثرات سے بھی نوازا۔ خیر!
رب قدیر موصوف کو تمام دینی خدمات کا بہتر صلہ عطا فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور اور آپ کے اہل خانہ نیز روحانی اولاد (تلامذہ) کو صبرجمیل کی توفیق رفیق بخشے۔
آمین بجاہ سیدالانبیاء والمرسین۔
شریک غم
ازہرالقادری
جامعہ اہل سنت امدادالعلوم مٹہنا، کھنڈسری، سدھارتھ نگر یوپی۔