از : عبدالمبین حاتم فیضی
نور ِ مطلق نـے اتارا نور ِ وحدت کا چراغ
بُجھ کے یکدم رہ گیا کفر و ضلالت کا چراغ
ظلم و اِستِبداد کے پُر زُور طوفانوں کے بیچ
تھا درخشاں، ہے، رہے گا، اک عزیمت کا چراغ
ایک پل مِیں ، مَیں زمیں سے آسماں بن جاؤنگا
خواب میں گرمیرے،چمکےان کی رؤیت کاچراغ
صرف ذاتِ رب کو ہے معلوم یہ سِـرِّ نہاں
کس بَلندی پر ہے روشن ان کی رفعت کا چراغ
ہے محافظ خود ہی اس کا مالک کون و مکاں
بجھ نہیں سکتا کبھی نعتِ رسالت کا چراغ
میں بھی شہرِ نور کا زائر بنونگا ایک دن
جگمـگائے گا کبھی تو میری قسمت کا چراغ
موت کو بھی زندگی مل جائےگی اس دم مری
گـر بُجھے دربارِ آقا میں معیشت کا چراغ
روغنِ لطف و کرم سرکار ! اس میں ڈال دیں
تاکہ ہوجائے منور میری قسمت کا چراغ
دائمی توقیر و عزت کے اگر خواہاں ہیں آپ
دل میں کرلیجے فروزاں ان کی سیرت کا چراغ
کب تلک یوں ظلمتِ تنہائی میں حاتم رہے
کیجئے سرکار ! اب روشن رِفاقت کا چراغ