ازقلم: مختار تلہری ثقلینی بریلی
ارادے پھر بھی مستحکم بہت ہیں
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
جسے جانا ہو واپس لوٹ جائے
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
بہت دشواریوں کا سامنا ہے
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
تبھی محتاط ہو کر چل رہا ہوں
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
مسافت کچھ زیادہ تو نہیں ہے
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
یہ چلنے ہی سے اب ہموار ہوں گے
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
تمہارے راستے ہیں سیدھے سادے
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
عطا کر مجھ کو یا رب استقامت
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
مجھے ثابت قدم رکھ یا الہی
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
اسے پا کر ہی دم لوں گا ، اگرچہ
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
چلو تو ساتھ چل سکتے ہو، لیکن
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
سمجھ لو ہمسفر بننے سے پہلے
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
سفر ہی کرنا ہے تو کیوں کہوں میں
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
یہ کہتے کہتے منزل پا گیا ہوں
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
تمہاری راہ میں مختار کم تھے
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں