انٹرویو

اکیسویں صدی کا اردو ہندی ادب سمت و رفتارپر پروفیسر سنتوش بھدوریہ صاحب سے ڈاکٹر صالحہ صدیقی کی گفتگو

ٍ(الٰہ آباد،پریس ر یلیز)ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے منعقد پروگرام ’’آؤ بات کریں ‘‘ کا انعقاد ۲۰ دسمبر ۲۰۲۱ بروز دوشنبہ شام ساڑھے سات بجے کیا گیا ۔جس میں ’’اکیسویں صدی کا اردو ہندی ادب سمت و رفتار‘‘ پر ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے پروفیسر سنتوش بھدوریہ (شعبۂ ہندی ،الٰہ آباد یونیورسٹی ) سے گفتگو کی ۔پروفیسر سنتوش بھدوریہ کی اس موضوع پر گہری نظر رہتی ہے ۔انھوں نے دھیمی تبدیلی کے بڑے نتائج پر بہت ہی غور و فکر کیا ہے ،اس لیے ان سے بہتر اس موضوع کے ساتھ کوئی اور انصاف نہیں کر سکتا تھا ۔یہ پروگرام مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم مثلا یو ٹیوب ،فیس بک پر بھی لائیو رہا ،جس کو دنیا بھر کے لوگوں نے سنا ،یہ پروگرام یو ٹیوب چینل ’’اردو ہندی لو ‘‘ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے پروگرام کی ناظم ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے پروفیسر سنتوش بھدوریہ کا تعارف پیش کیا اور ان کے علمی وادبی سفر پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔جس کے بعد سوال جواب کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔اکیسویں صدی کی سمت و رفتار پر روشنی ڈالتے ہوئے سنتوش بھدوریہ نے ایگیا دو گینی یاروں کے اقتباس سے اپنی بات کی ابتدأ کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم اکیسویں صدی کی بات کرتے ہیں تو ایک ترقی کا ،ٹکنالوجی کا،گلوبلائیزیشن کا تصور ذہن میں آتا ہے ،ایسے میں جب ہم ادب اور ادیبوں کی بات کرتے ہیں تو ایک الگ منظر دکھائی دیتا ہے ۔ساتھ ہی بہت سے سوال بھی پیدا ہوتے ہیں ،جہاں تک اردو ہندی زبان کی بات کرتے ہیں تو دونوں زبانوں کی ایک تابناک تاریخ رہی ہے ،یہ زبانیںصدیوں کی پرمپرا اور ریتی رواج کی بھی نمائندہ ہے جو ہمیں ایک دن میں حاصل نہیں ہوئی بلکہ دونوں زبانوں کے ادیبوں نے مل کرصدیوں میں بنایا ہیں اور سوچ سمجھ کر بنایا ہے اس ساجھے پن کو ہمیشہ انھوں نے بانٹا ہے جس کا گہرا رشتہ سماج ،معاشرہ اور عوام سے رہا ہے ۔اس روایت کو اکیسوی صدی میں بھی بنائے رکھنے کی ضرورت ہے ،سماجی ،معاشی ،معاشرتی حقیقتوں کو، گرد و پیش کے بنیادی مسائل کو ادب میں پیش کرنے کی روایت کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ادب میں حقیقت بیانی کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔‘‘پروفیسر سنتوش بھدوریہ نے اردومیں دلت سماج ،استری ویمرش،گاؤں دیہات کی کم نمائندگی کے مسئلے پر بھی تفصیلی گفتگو کی اور ترقی پسند تحریک کے آخری روح رواں کے طور پر عقیل رضوی کو اہم مانا۔انھوں نے نوجوانوں کو ہندستان کی تاریخی شخصیات کی زندگی اور جد و جہد کو پڑھنا اور عمل کرنے کی تلقین بھی کی ۔
اس طرح ان کی شخصیت اور فن کے علاوہ دور حاضر میں فکشن کی صورت حال ،سمت و رفتار ،چیلینج ،نوجوان قلمکاروں کے لیے نصیحت و توقعات پر مبنی اہم سوالات و جوابات کا سلسلہ چلا ۔اس پروگرام میں شخصی تعارف نظامت کا فریضہ ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے اور اظہار تشکر محمد ضیاء العظیم نے انجام دیا ۔اس پروگرام میںشامل مہمانان نے اس گفتگو پر اپنے خیالات کا بھی اظہار کیا ۔جس میں دیگر اہم مہمانان میں ڈاکٹر نازیہ امام ،ڈاکٹر راہین ،محمد عمر ،محمد شارق ،شوق پرنوی ، وغیرہ شامل رہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے