فرید عالم اشرفی فریدی
وہ زمانے میں نرالا ہے قلندر دیکھو
شاہ طیبہ کی نظر ہو گئی جس پر دیکھو
ساری دنیا میں نرالا ہے وہ جا کر دیکھو
رکھ دیا اپنا قدم آپ نے جس پر دیکھو
تکتے رہتے بڑی حسرت سے فرشتے ہر دم
کاش مل جاتا مجھے ایسا مقدر دیکھو
کل جہاں جس کے وسیلے سے ہوا ہے روشن
مظہر ذات ہے وہ نور کا پیکر دیکھو
انبیاء سارے ہیں مولی کی عطا سے اعلی
سب کے لیکن مرے سرکار ہیں افسر دیکھو
جالی و منبر و محراب ہے چوما جس نے
مثل خورشید چمکتا ہے وہ گوہر دیکھو
اک اشارے میں کیا چاند کو ٹکڑے جس نے
وہ ہیں محبوب خدا شان پیمبر دیکھو
حشر کے خوف سے ڈرنے کی ضرورت کیا ہے
جب شفاعت کو کھڑے شافعِ محشر دیکھو
مجھ کو دنیا کی نہیں جاہ و حشم کی خواہش
عشق سرور میں فنا ہے دلِ مضطر دیکھو
یاد سرکار میں کھویا ہے فریدی جب سے
مشک و عنبر سا ہوا یے وہ معطر دیکھو