زبان و ادب

ادب اور مقصدیت

از قلم : سید خادم رسول عینی


اچھا ادیب وہ ہے جو اپنی صلاحیت کا استعمال قوم کی بہبودی کے لیے کرے ، ادب کے ذریعہ انسانی برادری میں رواداری پیدا کرنے کی کوشش کرے ، سماج میں مایوسی اور رنج کو دور کرکے فرحت و شادمانی کی فضا قائم کرنے کی کوشش کرے ، قنوطیت کے عوض رجائیت کا پرچار کرے۔

ادب کا مقصد مسرت بہم پہنچانا ہے۔
ادب کا مقصد تشکیل حسن اور تلاش حسن ہے جس سے انفرادی و سماجی جذبات و احساسات کی تسکین ہو ۔ادب کا مقصد تعمیر ہے نہ کہ تخریب ۔

جب زندگی کی دائمی قدروں اور فنی و جمالیات اقدار کو اپنی تحریر میں شامل کیا جائے تو وہ تحریر ادب کہلائی جائےگی ؛ اگر تحریر میں تخریب کاری کے عناصر ہوں تو وہ تحریر ادب نہیں بلکہ شر انگیزی کے مترادف ہوگی ۔

ادب کی مختلف شکلیں ہیں:
شاعری
تنقید
مقالہ نگاری
انشا پردازی
افسانہ نگاری
ناول نگاری
وغیرہ

جب‌ شاعر کلام کہتا ہے تو اس کا مقصد اصلاح معاشرہ ہوتا ہے۔صرف اپنا شوق پورا کرنے کے لئے وہ شعر نہیں کہتا بلکہ اس کا مقصد ترسیل ابلاغ بھی ہوتا ہے ۔وہ چاہتا ہے کہ وہ شعر کے ذریعہ اپنے تخیلات اور اپنے احساسات کو عوام تک پہنچائے ۔مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
(ڈاکٹر اقبال)

یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
(ڈاکٹر اقبال)

دن لہو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے
شرم نبی خوف خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
(علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ)

پہلے سننے کا جگر پیدا کر
اور پھر جو بھی ہے ارشاد بتا
(علامہ قدسی)

تنقید نگاری بھی برائے تعمیر اگر ہو تو اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔تنقید نگاری میں شاعر کی تذلیل کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔

مقالہ نگاری ، انشا پردازی ، افسانہ نگاری ، ناول نگاری کا مقصد بھی اصلاح معاشرہ ہے ۔کسی افسانے یا ناول کو اگر ڈیجیٹلاءز /پکچراءز کردیا جائے تو اسے فلم کہتے ہیں۔ فلم کیا ہے ؟
آرٹ اور سائنس کے امتزاج کو فلم کہتے ہیں۔
کسی ناول کو سلور سکرین میں پیش کرنا فلم کہلاتا ہے۔
ادب‌ کی ایکسٹینشن/ توسیع کو فلم کہا جاتا ہے۔

گویا فلم ڈایریکٹر/ فلم بنانے والا ایک آرٹسٹ ہے۔ وہ بھی آرٹ کی ترقی کے لیے کام کرتا ہے ، ادب کی بہبودی کے لئے کوشاں رہتا ہے۔اصلاح معاشرہ کے لیے فلم بناتا ہے ۔اس کا فلم بنانے کا مقصد تعمیر ہونا چاہیے ، نہ کہ تخریب۔

جب اسلامو پھوبیا کو فروغ دیا جارہا تھا تو کرن جوہر نے اسلامو پھوبیا کے خلاف آواز اٹھائی اور اسلامو پھوبیا کے سد باب کے لیے ٢٠١٠ ء میں ایک فلم بنائی:
مائی نیم از خان اینڈ آئی ایم ناٹ اے ٹیرورسٹ۔

اس سے پہلے بھی کئی فلمیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بنائی گئی ہیں ۔مثلا:

عالم آرا۔…١٩٣١
دھول کا پھول۔۔۔١٩٥٩
مغل اعظم۔۔۔١٩٨٣
سرفروش۔۔۔۔ ١٩٩٩
مسلم میرر ڈاٹ کوم۔۔۔۔٢٠١٨
وغیرہ

غالبا’ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ملک میں ایک فلم تخریب کاری کے لئے بنائی گئی ہے۔
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ڈسٹرب کرنے کے لئے فلم بنائی گئی ہے۔
ملک میں انتشار پھیلانے کے لئے فلم بنائی گئی ہے۔اسلامو پھوبیا کو بڑھاوا دینے کے لئے فلم بنائی گئی ہے۔

اس مسءلہ کا حل کیا ہے ؟ اس تخریب کاری کا جواب کیسے دیا جائے؟ ان شر پسند عناصر کے غلط مقاصد کو ناکام کیسے کیا جائے؟

ہمارا ملک ایک بہت بڑا اور وسیع ملک ہے۔اس ملک میں قابل اور ذی صلاحیت دانشوروں کی کمی نہیں ہے ۔

جب سلمان رشدی نے شیطانی ورسیز نامی بدنام زمانہ کتاب لکھی تو اس کے جواب میں رفیق ذکریا نے قرآنی ورسیز نامی مدلل کتاب لکھی اور سلمان رشدی کے دانت کھٹے کردیے۔

جب کراچی کے شاعر ہاشم رضا ہاشم نے ١٩٨٥ ء میں مولوی نامہ نام کی نظم‌ لکھ کر علمائے اسلام کی توہین کی تو علامہ سید اولاد رسول قدسی مصباحی نے ہاشم رضا ہاشم کو دنداں شکن جواب دیتے ہوئے ایک طویل نظم لکھی بنام جواب مولوی نامہ ۔

ہاشم رضا ہاشم کے مولوی نامہ نظم کا ایک شعر جو مجھے یاد ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:

کھا کھا کے اپنا پیٹ بڑھاتا ہے مولوی
ملت کے غم میں پھولتا جاتا ہے مولوی

اس نظم کے جواب میں علامہ قدسی نے پچاس اشعار پر مشتمل ایک طویل نظم کہی اور اس نظم‌ کو اخبار مشرق سمیت کئی اخبار و رسائل میں شائع کروایا۔علامہ قدسی کی اس شہرہء آفاق نظم کے چند اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:

اسباق اتحاد پڑھاتا ہے مولوی
آلائش فتن کو ہٹاتا ہے مولوی

غیروں کا مال ٹھاٹ سے کھاتا ہے یہ غلط
ہر امر ناروا سے بچاتا ہے مولوی

سوتا نہیں ہے چھاؤں میں آرام سے کبھی
بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتا ہے مولوی

فتوے کی شکل دیکے اصول رسول کو
انسانیت کا رتبہ بڑھاتا ہے مولوی

ہاشم ! تو عالموں کے ہے احسان کا رہین
تائب تجھے بھی شر سے بناتا ہے مولوی

تو بھولتا ہے وقت ولادت کی منتیں
کانوں میں جب اذان سناتا ہے مولوی

مرتا ہے چین سے بھی تو عالم ہی کے طفیل
وقت ممات کلمہ پڑھاتا ہے مولوی

کرتا ہے مولوی ہی تو تلقین قبر میں
تدفین کے رسوم بتاتا ہے مولوی

توہین عالموں کی ضلالت ہے ، کفر ہے
جنت کی راہ ہم کو دکھاتا ہے مولوی

قدسی خدا کی رحمت مخصوص اس پہ ہو
تقدیر قوم بن کے جو آتا ہے مولوی

علامہ قدسی کا یہ کلام مقبول خاص و عام بن گیا۔آپ کے اس کلام کی پزیرائی بہت ہوئی ۔ یہ کلام‌ شائع ہونے کے بعد اخبار مشرق کلکتہ میں کئی روز تک اس کلام‌ پر مثبت تبصرے ہوتے رہے۔

بہر حال ؛ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک کے دانشوروں نے شر کا جواب بہر صورت دیا ہے۔
نثر کا جواب نٹر میں دیا۔
نظم کا جواب نظم کی صورت دیا۔
مقالہ کا جواب مقالہ سے دیا ۔
انشا کا جواب انشا سے دیا ۔
فیس بک میں شرارت کا جواب فیس بک میں دیا ۔
یو ٹیوب میں بد تہذیبی کا جواب یو ٹیوب میں دیا ۔
ٹویٹر میں طعنہ زنی کا جواب ٹویٹر میں دیا ۔

اب شر انگیز فلم کا جواب فلم سے دینا ہے۔
سلور سکرین کا جواب سلور سکرین میں دینا ہے ۔
بگ سکرین کا جواب بگ سکرین میں دینا ہے ۔

ہمیں امید قوی ہے کہ بالی ووڈ کا / ملک کا کوئی دانشور اس منافرت پھیلانے والی فلم کو دنداں شکن جواب دینے کی غرض سے حقیقت پر مبنی ایک فلم ضرور بنائیگا جس سے حقیقت منکشف ہوجائےگی اور عوام کے ذہن و دماغ میں جو نفرت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ کوشش ناکام ہوجائےگی ۔

اگر سلمان رشدی کی نثر کا جواب رفیق ذکریا نے نثر میں دیا ہے،
اگر ہاشم رضا ہاشم کی نظم کا جواب علامہ قدسی نے نظم میں دیا ہے ،

تو اگنی ہوتری کی فلم کے جواب کے لیے پھر سے کوئی کرن جوہر ، فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے اٹھ کھڑا ہوگا اور ماحول سازگار بن جائےگا۔

ہم پہلے بھی رجائیت پسند تھے،
ابھی بھی رجائیت پسند ہیں،
اور آیندہ بھی رجائیت پسند رہیں گے۔
ان شاء اللہ